190 ملین پاؤنڈ کے کیس کے فیصلے نے عمران خان کی ایمانداری،ریاست مدینہ کی دعویداری کو نہ صرف بے نقاب کیا ہے بلکہ اس فیصلے کے ذریعے عمران خان کو "سرٹیفائیڈ چور” قرار دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک اہم سبق دیتا ہے اور ہمارے معاشرتی اور اخلاقی اصولوں کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس فیصلے نے عمران خان کو بے نقاب کیا ہے جو دوسروں پر الزام لگانے اور جھوٹے دعوے کرنے میں ماہر تھا، مگر خود اس کے اندر اتنی اخلاقی گراوٹ تھی کہ وہ عدالت میں اپنی بے گناہی کے ثبوت بھی پیش نہ کر سکا۔
اس کیس کے مرکزی کردار عمران خان نے ہمیشہ اپنی تقاریر اور دعووں میں "ریاست مدینہ” کے خیالات اور اصولوں کی بات کی تھی۔ اس نے اپنے آپ کو ایمانداری، سچائی اور انصاف کا علمبردار ظاہر کیا۔ لیکن 190 ملین پاؤنڈ کے کیس کے دوران عدالت میں جو کچھ سامنے آیا، وہ اس کے دعووں کی حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ عمران خان نے ریاست مدینہ کے اصولوں کا دعویٰ کیا، مگر اپنی حقیقت میں اس کے عمل اس دعوے سے کہیں زیادہ متضاد تھے۔سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ تھی کہ عمران خان نے اکثر دوسروں پر چور، ڈاکو اور بدعنوان ہونے کے الزامات لگائے۔ یہ الزامات وہ ایسے موقعوں پر لگاتا تھا جب اس کے اپنے مفادات کو خطرہ لاحق ہوتا تھا۔ اس نے خواتین کو اسپتال سے گرفتار کرانے جیسے ناپاک عمل کو بھی روا رکھا، تاکہ وہ اپنی چوری چھپانے اور دوسرے لوگوں کو بدنام کر سکے۔آج عمران خان کے پاس عدالت میں اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ بشریٰ بھی اس کی معاون تھی،یہ اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ اس نے اپنی چوری چھپانے کے لیے جھوٹ بولنے اور دوسروں پر الزام لگانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ جب اسے اپنے اعمال کا جواب دینا پڑا، تو وہ سب کچھ سامنے آ گیا جو اس نے چپکے سے چھپایا تھا۔
190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ دراصل مکافات عمل کی ایک شاندار مثال ہے۔ جب انسان دوسروں کو دھوکہ دینے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے تو ایک نہ ایک دن سچائی سامنے آ ہی جاتی ہے۔ اس کیس نے ثابت کیا کہ جھوٹ اور منافقت کا انجام ہمیشہ رسوائی اور ذلت ہوتا ہے۔ آج عمران خان اسی مقام پر پہنچا ہے جہاں اس کے جھوٹ اور منافقت کا پردہ چاک ہو چکا ہے، اور اسے "سرٹیفائیڈ چور” قرار دیا گیا ہے۔190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انصاف اور سچائی کی راہ ہمیشہ مشکل ہوتی ہے، مگر بالآخر سچ کا سامنا جھوٹ سے ہوتا ہے۔ وہ شخص جو دوسروں پر الزام لگا کر اپنی چوری چھپاتا تھا، آج وہ خود اپنے جرائم کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ ایک سبق ہے کہ انسان کو اپنے عمل کی بنیاد پر جینا چاہیے، نہ کہ جھوٹ بول کر دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔یہ فیصلہ سب کے لیے ایک انتباہ ہے، بلکہ معاشرتی سطح پر بھی ایک پیغام ہے کہ جھوٹ اور بدعنوانی کا آخرکار حساب لیا جاتا ہے اور سچائی ہمیشہ غالب آتی ہے۔
1980 کی دہائی میں ساحل پرلی گئی تصویر،40 برس بعد3 بہنوں نے دوبارہ بنا لی