آرزو کی لاش جس میں ہے دبی، میرے ماضی کا کھنڈر ہے اور میں

ڈاکٹر نسیمہ بیگم شاعرہ کم اور افسانہ نگارزیادہ تھیں۔
0
215
poet

تمھاری بات میں ہونے لگیں جب تلخیاں شامل
تو میں بھی اپنی وہ شیریں بیانی بھول بیٹھی ہوں

نسیمہ بیگم ارم

اڈیشا میں خواتین قلمکاروں کی تعداد فی زمانہ کم رہی ہے جن خواتین نے تھوڑی بہت لوح و قلم کی پرورش کی ہے ان کا رجحان ِطبع زیادہ تر شعر وشاعری کی طرف رہا ہے۔ ڈاکٹر نسیمہ بیگم ہی وہ واحد قلمکار ہیں جنھوں نے نثر ونظم میں اپنی تخلیقی بصیرت کے عمدہ نقوش مرتب کیے ہیں۔ا س کے علاوہ کوئی ایسی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے کہ نثر نگاری میں بھی کسی خاتون نے نام پیدا کیا ہو۔ڈاکٹر نسیمہ بیگم شاعرہ کم اور افسانہ نگارزیادہ تھیں۔اردو اور اڑیا زبانوں پر یکساں دسترس حاصل تھی۔وہ ایک کامیاب ترجمہ نگار بھی تھیں۔اڑیا کے متعدد افسانوں کو انھوں اردو جامہ عطا کرکے اردو ادب میں گرانقدر اضافہ کیا ہے۔

جب شعر وشاعری کی طرف توجہ مبذول کی تو ارمؔ تخلص رکھا۔غزل کے علاوہ انھوں نے بہت سی آزاد اور نظمِ معرا بھی لکھی ہیں۔چونکہ افسانہ نگاری ان کی اولین ترجیح تھی اس لیے شعری اثاثہ بہت کم ہے۔ان کی غزلوں میں جہاں روایتی موضوعات مل جاتے ہیں وہیں عہدِ حاضر کے انہدام پذیر معاشرے کی جھلکیاں بھی نظر کش ہوتی ہیں۔ان کی غزلوں کا نمایاں پہلو نسوانی لہجے کی ریشمی سراسراہٹ ہے جو قاری کو ایک انوکھے ذائقے سے آشنا کراتی ہے۔

کٹک کے محلہ ہاتھی تالاب کے ایک علمی خانوادے میں ان کی ولادت ۵؍جون ۱۹۵۰ ء کو ہوئی۔اردو میں ایم۔اے کرنے کے بعد پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ۔کٹک کے روانشا یونیورسٹی میں ریڈر کے فرائض انجام دیئے۔ سبکدوشی کے بعد حالانکہ فراغت کے لمحے میسر ہوئے مگر امورِ خانہ داری کی مصروفیا ت نے انھیں تخلیقی کارنامہ انجام دینے کا زیادہ موقع نہ دیا ۔پھر بھی انھوں نے اپنے ان افسانوں کو جو مختلف رسائل کی زینت بن چکے تھے‘یکجا کرکے کتابی شکل دی جو’’رنگ بدلتے چہرے ‘‘ کے نام سے شائع ہوکر اہلِ ادب سے پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔ ۲۶؍ نومبر ۲۰۱۳ ء کو ان کی ناگہانی موت نے اڈیشا کی ادبی فضا میں جو خلا پیدا کیا ہے و ہ آسانی سے پر نہیں کیا جاسکتا۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ماخوذ از اڈیشا میں اردو شاعری- مصنف سعید رحمانی)

غزل
۔۔۔۔۔
میں دل کے زخم کی ہراک کہانی بھول بیٹھی ہوں
خوشی پانے کی خاطر زندگانی بھول بیٹھی ہوں

تمہاری یاد میرے دل میںپھر سے آ نہیں سکتی
مجھے تم نے جو دی تھی وہ نشانی بھول بیٹھی ہوں

تمہاری بے رخی نے میری حالت ہی بدل ڈالی
کبھی کی تھی جو تم نے مہربانی بھول بیٹھی ہوں

تمہاری بات میں ہونے لگیں جب تلخیاں شامل
تو میں بھی اپنی وہ شیریں بیانی بھول بیٹھی ہوں

مجھے حالات جب دینے لگے پسپائیاں پیہم
ملی تھی پہلے جو بھی کامرانی بھول بیٹھی ہوں

ارمؔ الجھن کے نرغے میں ہوئی محصور جب سے میں
وہ پہلی مسکراتی زندگانی بھول بیٹھی ہوں

غزل
۔۔۔۔۔
کھٹے میٹھے تجربوں کا ذائقہ رکھتی ہوں میں
مشکلوں میں زندگی کا حوصلہ رکھتی ہوں میں

درد کے موسم میں بھی آنکھیں نہیں ہوتی ہیں نم
چوٹ کھا کر مسکرانے کی ادا رکھتی ہوں میں

اپنے بچوں کو تمازت سے بچانے کے لیے
مامتا کی چھاؤں میں ان کو سدا رکھتی ہوں میں

زندگی کی جنگ میں بچے ہوں میرے کامیاب
ہونٹ کی محراب پر حرفِ دعا رکھتی ہوں میں

شاعری میں اپنے دل کی ترجمانی کے لیے
گونگے لفظوں کی زباں پر بھی صدا رکھتی ہوں میں

ہے مرے پیشِ نظر محشر کا منظر اے ارمؔ
اپنے دل میں اس لیے خوفِ خدا رکھتی ہوں میں

غزل
۔۔۔۔۔
دھند میں روپوش گھر ہے اور میں
کالے پانی کا سفر ہے اور میں

سر پہ میرے دھوپ کا ہے سائباں
ایک تپتی رہگزر ہے اور میں

روز و شب جس کے مہکتے ہیں سدا
تیری یادوں کا نگر ہے اور میں

آرزو کی لاش جس میں ہے دبی
میرے ماضی کا کھنڈر ہے اور میں

دھوپ کی یلغار سے چاروں طرف
پیڑ بے برگ و ثمر ہے اور میں

زندگی سے اور کیا چاہوں ارمؔ
شاعری کا اک ہنر ہے اور میں

Leave a reply