اسرائیل ایران پر حملے کے لیے تیار، نیتن یاہو نے ایران کو جنگ کے لیے مجبور کیا: الجزیرہ تجزیہ

iran

الجزیرہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایران کو حملے پر اکسانے کی کوشش کی ہے تاکہ اسرائیل کو ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا جواز فراہم ہو۔ یہ بات الجزیرہ کی تجزیہ نگار دورسا جابری نے اپنی رپورٹ میں کہی، جس میں انہوں نے اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کا جائزہ لیا۔الجزیرہ کی انگریزی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اس تجزیے کے مطابق، جب 13 اپریل کو ایران نے اسرائیل پر میزائل حملہ کیا تھا، تو ایران نے پس پردہ چینلز کے ذریعے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو پہلے سے مطلع کر دیا تھا۔ تاہم، اس بار اسرائیل کو ایرانی حملے کی اطلاع صرف چند گھنٹے پہلے ملی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں تیزی آئی ہے۔تجزیہ میں بتایا گیا کہ اسرائیل اپنی دفاعی اور جوابی کارروائی کے لیے پوری طرح تیار ہے اور اسرائیلی فوج نے واضح کر دیا ہے کہ اگر ایران اپنے جوہری پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹا تو اسرائیل ایران کی چھ بڑی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اسرائیل نے اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران کو اس کے جوہری منصوبوں سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دے گا۔

دورسا جابری کے مطابق، ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ ایران اس حملے سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کیا یہ حملہ ایران کی طاقت کے اظہار کی کوشش تھی یا پھر وہ اسرائیل کے سامنے ایک "سرخ لکیر” کھینچنا چاہتا تھا؟ تجزیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایران کی جانب سے اس قسم کے اقدامات عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں اور خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔تجزیہ نگار کے مطابق، نیتن یاہو ایران کو اشتعال دلانے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ وہ اپنی جوابی کارروائی کے لیے عالمی برادری سے حمایت حاصل کر سکیں۔ حالیہ واقعات، بشمول حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کے قتل، سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیتن یاہو اس موقعے کی تلاش میں تھے۔ ان واقعات کے بعد اسرائیل کو وہ جواز مل گیا ہے جس کی اسے ضرورت تھی یعنی ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا۔
الجزیرہ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نیتن یاہو ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے اپنے مقصد کو حماس اور حزب اللہ جیسے گروہوں کے نام پر آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ گروہ ایران کی حمایت یافتہ ہیں اور انہیں نشانہ بنا کر اسرائیل دراصل ایران کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ تازہ ترین پیش رفت اسرائیل اور ایران کے درمیان پہلے سے موجود تنازعات کو مزید ہوا دے رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل واقعی ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرتا ہے تو اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں ایک اور بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے۔عالمی برادری اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک اسرائیل اور ایران دونوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تاکید کر رہے ہیں، جبکہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی اس تنازعے کے ممکنہ اثرات سے خوفزدہ ہیں۔یہ صورتحال عالمی سیاست میں ایک نیا بحران پیدا کر سکتی ہے، جو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا بھر کے امن کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔

Comments are closed.