افغانستان سے امریکی انخلاء کے برسوں بعد روس نےواضح کیا ہے کہ افغانستان اور پڑوسی ممالک میں امریکا اور نیٹو کی فوجی موجودگی کی واپسی ناقابل برداشت ہے ، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کازان میں افغانستان پر مشاورت کے ماسکو فارمیٹ میں اپنے خطاب میں کی اور لاوروف کی تقریر جمعہ کو روس کے خصوصی صدارتی نمائندے برائے افغانستان ضمیر کابلوف نے پڑھی، جہاں وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک غیر علاقائی کھلاڑیوں کی جانب سے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں تیز کرنے کی کوششوں پر فکر مند ہے۔
اجلاس میں افغان حکومت کے نمائندوں کے علاوہ چین، سعودی عرب، قطر اور ترکیہ کے وفود نے شرکت کی جبکہ آج جمعہ کو افغانستان پر ماسکو فارمیٹ مذاکرات کے پانچویں ایڈیشن کی سرگرمیاں روس کے شہر کازان میں شروع ہوئیں جس میں روس، بھارت، ایران، چین، پاکستان، سعودی عرب اور دیگر ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔
علاو ہ ازیں یہ بات عبوری افغان حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کی سربراہی میں طالبان کے وفد کی آمد کے بعد سامنے آئی تاہم اجلاس کے شرکاء نے افغانستان کی موجودہ صورتحال، افغان عوام کے درمیان مفاہمت کے مسائل، علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے اور تنازعات کے خاتمے کے بعد افغانستان کی تعمیر نو کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
افغان تنازع کے حل کے لیے ماسکو فارمولے کا پہلا اجلاس پہلی بار 14 اپریل 2017 کو منعقد ہوا، جس میں 11 ممالک روس، افغانستان، چین، پاکستان، ایران، بھارت، پاکستان، قازقستان، تاجکستان، قرغیزستان، ازبکستان اور ترکمانستان نے شرکت کی۔
انخلاء کے دو سال بعد
مزید یہ بھی پڑھیں؛
ورلڈکپ کے لئے کمینٹیٹرز کے پینل کا اعلان
سانحہ جڑانوالہ پر جے آئی ٹی نہیں بنائی جائے گی,محسن نقوی
آئی ایم ایف کا انرجی سیکٹر میں اصلاحات میں بہتری کا مطالبہ
یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان کو طالبان کے اقتدار میں آئے دو سال گذر چکے ہیں اور اگست 2021 میں امریکیوں نے اس سے انخلا کیا تھا۔
جب سے طالبان نے 15 اگست 2021 کو امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھالا ہے انہوں نے افغان لڑکیوں اور خواتین کو نشانہ بناتے ہوئے کئی پابندیاں عائد کی ہیں، جن میں چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکنا، افغان خواتین کو مقامی اسکولوں میں کام کرنے سے روکنا اور غیر سرکاری تنظیموں میں کام اور میڈیا میں کام پرپابندی شامل ہیں۔