نظریہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ درحقیقت نظریہ ریاست مدینہ تھا –

ازقلم غنی محمود قصوری

اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے خواب پاکستان دیکھا اور دو قومی نظریہ پیش کیا کیونکہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ مسلمانوں کی ہندوستان میں خطرناک صورتحال سے بخوبی آگاہ تھے

قائد اعظم محمد علی جناح کو اقبال نے کہا تھا کہ ایک ایسا ملک حاصل کیا جائےجہاں مسلمان بغیر کسی خوف و خطر اپنی عبادات کر سکیں اور ان کے جان و مال محفوظ ہو

دو قومی نظریہ کی پیش کی گئی کانفرنس سے پہلے ہی اقبال خالق حقیقی سے جا ملے تھے مگر قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کی ٹیم نے ولی کامل علامہ محمد اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا اور دو قومی نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا
جس کی بنیاد پر ارض پاکستان حاصل کیا گیا

وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکل رہے تھے تو فرما رہے تھے

وَاللَّهِ، إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللَّهِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللَّهِ إِلَى اللَّهِ، وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ.( رواہ الترمذی:3925 وصححہ الالبانی رحمہ اللہ تعالی )

اللہ کی قسم (اے مکہ) بے شک تو سب سے بہترین اللہ کی زمین ہے اور اللہ کے ہاں سب سے محبوب ترین ہے اگر تیری قوم مجھے تجھ سے نہیں نکالتی میں کبھی نہیں نکلتا

چھوڑے گئے وطن کی یاد انسان کو فطری طور پر رلاتی رہتی ہے اسی لئے حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ آئے تو اپنے اصلی وطن مکہ کو یاد کرتے اور اشعار پڑھتے تھے

أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ

وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ

اے کاش۔ کیا میں مکہ کی اذخر اور جلیل گھاس والی وادیوں میں رات گزارونگا ؟

کیا میں کسی دن مکہ میں موجود مجنہ پانیوں کے پاس جاسکوں گا؟ کیا میرے لیے دوبارہ مکہ کے شامہ اور طفیل پہاڑ جلوہ افروز ہونگے؟ (صحیح بخاری حدیث:3926 )وغیرہ۔

رسول اللہ ﷺ نے جب یہ باتیں سنیں تو فرمایا تھا

اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ

اے اللہ جس طرح ہماری ( اپنے وطن مکہ ) کے ساتھ محبت ہے اسی طرح ہماری دلوں میں مدینہ کی محبت کو بھی بٹھا دے-

یقیناً ہمارے آباؤ اجداد بھی چھوڑے گئے وطن ہندوستان کو یاد کرکے غمگین ہوا کرتے تھے مگر ہجرت کرنا مجبوری تھی کیونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کا جان و مال محفوظ نا تھا سو اسی لئے دو قومی نظریہ ضروی تھا جس کیلئے ہجرت کرکے الگ وطن حاصل کرنا لازم تھا تاکہ مسلمان آزادی سے رہ کر زندگیاں گزاریں اور اپنے رب کی عبادت بلا روک ٹوک اور خوف و خطر کر سکیں-

نیز اس کے علاوہ دو قومی نظریہ کیوں ضروری تھا اس کیلئے تاریخ ہندوستان لازمی پڑھیں کہ کس قدر ہندوؤں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے اگر تاریخ نہیں پڑھ سکتے تو موجودہ دنوں میں ہی انڈین تری پورہ،حیدر آباد،گجرات و دیگر ہندوستانی علاقوں میں مسلمانوں پر ہندوؤں کی طرف سے کئے گئے مظالم ہی دیکھ لیجئے کہ ہر روز مسلمانوں کی مسجدوں پر حملے کئے جاتے ہیں اور مسلمانوں کو ناحق شہید کیا جاتا ہے اور ان کی املاک پر قبضہ کیا جاتا ہے ان کو گائے کا گوشت کھانے نہیں دیا جاتا اور ایک اچھوت قوم سمجھا جاتا ہے حالانکہ مسلمان دنیا کی سردار قوم ہے جس کی تاریخ فتوحات سے بھری پڑی ہے

دو قومی نظریہ کیوں ضروری تھا اور پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں میں کیا فرق ہے اس کی مثال راقم ذاتی طور پر بیان کرتا ہے-

بطور جرنلسٹ راقم سے انڈین علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان جرنلسٹ نے واٹس ایپ پر رابطہ کیا سلام دعا کے بعد سخت شکایت کی کہ آپ مقبوضہ کشمیر کے حامی اور سخت ہندوستان مخالف ہیں جو کہ اچھی بات نہیں ہم مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا آپ ہندستان کے خلاف لکھنا چھوڑ دیجئے-

راقم نے برملا کہا کہ ہاں اس میں کوئی شک نہیں میں اس لئے ہندوستان مخالف ہوں کہ ہندوستان نے ریاست کشمیر پر ناجائز قبضہ کیا اور 75 سالوں سے مظلوم نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے نیز میں نے اپنے بچپن میں گجرات کا مسلم کش فساد بھی بذریعہ میڈیا دیکھا ہے جس میں ہزاروں مسلمانوں کو ہندو پلید نے آگ میں جلا دیا تھا اور اب تک روزانہ کی بنیاد پر یہ سلسلہ جاری و ساری ہے مسلمانوں کی مسجدوں کو مندروں میں بدلا جا رہاہے اور تو اور تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا گیا مسلمان عورتوں کی عزتیں محفوظ نہیں جس کا جب جی چاہتا ہے مسلمانوں کو سرعام قتل کر دیا جاتا ہے دنیا کونسا ایسا ظلم نہیں جو ہندوستانی مسلمانوں پر نہیں کیا جاتا ؟

اس پر انڈین صحافی صاحب لاجواب تو ہوئے اور کہنے لگے ارے صاحب ایسا کچھ بھی نہیں ہم بھی آزاد ہیں اپنے دھرم پر پورے اطمینان سے قائم ہیں اور اپنی عبادات بخوبی کرتے ہیں کوئی ہمیں روکتا نہیں میں آپکو آج شام ایک مسلمانوں کا جلسہ دکھاؤنگا تب دیکھ لیجئے گا کسطرح مسلمان آزاد ہیں ہندوستان میں سو آپ مسلمانوں کو ہندوستان و پاکستان میں یکجا کیجئے نا کہ کشمیر کے نام پر مزید تقسیم کیجئے –

شام ہوئی حسب وعدہ صاحب نے واٹس ایپ کال کی جس میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان جلسہ کر رہے تھے اور سارے کا سارا عنوان ہی وطن سے محبت اور عام واجبی سی رسومات کی فرضیت پر تھا اور ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگائے جا رہے تھے مگر کشمیر و فلسطین،عراق و افغانستان کے مظلوم مسلمانوں کے وطنوں میں انہی پر قابضین کی کوئی مذمت تک نا تھی نا ہی لفظ جہاد و قتال اور مظلوم کی مدد کی حرمت تھی

خیر میں نے کہا حضور وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے بشرطیکہ اس وطن میں آپ کو مذہبی آزادی حاصل ہو بصورت دیگر میرے نبی ذیشان نے مکہ چھوڑا اور ہجرت کرکے مدینہ سکونت اختیار کی جس کی احادیث اوپر بیان کی جا چکی ہیں اگر مکہ والے نبی ذیشان کو دکھ نا دیتے ،عبادات سے نا روکتے ،فرمان الہی کو مانتے تو میری نبی اپنا آبائی وطن مکہ کیوں چھوڑتے ؟سو دو قومی نظریہ اور ہجرت ہند ہمارے بڑوں کی ضرورت تھی اور یہی ضرروت اب آپکی بھی ہے آپ غلام ہیں ہندو کے آپ پر ظلم ہوتا ہے مگر حیرت ہے غلامی کی حد کی کہ آپ پھر بھی مطمئن ہیں؟ حالانکہ میرے نبی نے غلامی کو سخت ناپسند کیا ہے میں نے انہیں بتایا کہ ہجرت کے بعد مدینہ میں میرے نبی ذیشان کا وقت گزرا دعوت پیش کی اور کفار کے خلاف خود و اپنے اصحاب کو مضبوط کرکے اپنا وطن مکہ واپس لیا سو آپ بھی مسلمان ہونے کے ناطے ہندو کے ظلم پر سیرت نبوی کا مظاہرہ کریں اور غلام بننے کی بجائے آزاد بنیں –

انڈین صحافی صاحب یہ بات بھی نا مانے اور ہندوستان کے گن گاتے رہے خیر میں ان کی اصلاح کی خاطر انہیں احادیث نبویہ پیش کرتا رہا مگر صاحب حیل و حجت سے کام لیتے رہے اور مسلمانوں و ہندوؤں کے اکھٹا رہنے کے فوائد پر روز بیان فرماتے اور مجھے کشمیر کاز سے منع کرتے رہتےخیر وہ صاحب اپنے عقیدے پر قائم رہے اور ہم اپنے پر –

کچھ وقت گزرا راقم نے واٹس ایپ پر روٹین کے مطابق احادیث نبویہ و منہج سلف پر مبنی تحریریں سینڈ کی جس کا بہت دنوں تک نا کوئی جواب آیا اور نا ہی انہیں پڑھا گیا راقم شدید پریشان ہوا کہ زندگی موت اللہ کے اختیار میں ہے شاید ان سے زندگی نے وفا نا کی ہو یا اللہ نا کرکے کچھ اور معاملہ ہو گزرا ہو

خیر بیس سے بائیس دن بعد انہی صاحب نے خود ہی میسج کیا اور سوال جواب شروع کر دیئے میں نے ان کی خیریت دریافت کی اور غائب رہنے کا پوچھا تو گویا ہوئے کہ مجھے کس ضرروی کام کے سلسلے میں ممبئی جانا پڑا سو آپکا نمبر کانٹیکٹ لسٹ سے کاٹا اور واٹس ایپ کی بلاک لسٹ میں لگا دیا-

میں حیران ہوا بھئی کیا ہوا میں نے تو آپ کو سوائے حدیث نبویہ کے کوئی غلط بات ہی نہیں سینڈ کی صاحب گویا ہوئے کہ ممبئی میں ہندو انتہاہ پسند جماعتوں کا راج ہے وہ جب چاہیں جس بھی مسلمان کو روکتے ہیں ان کا موبائل چیک کرتے ہیں اگر ہمارا کسی پاکستانی سے رابطہ ہو سوشل میڈیا پر تو ہماری جان کو خطرہ بن جاتا ہے-

میں شدید ہنسا اور ان صاحب سے بولا جناب میں بھی اپنے وطن کا باشندہ ہوں اور آپ سے اپنے دشمن ملک کا باشندہ ہو کر آپ سے آزادنہ بات کرتا ہوں مجھے تو کسی کا ڈر نہیں تو پھر آپ خود کو کیسے آزاد مسلمان کہتے ہیں ؟حالانکہ ہمارے ملک میں بھی ہندو ،سکھ،عیسائی و دیگر مذاھب کے لوگ بخوبی آزادانہ زندگیاں گزار رہے ہیں اور ہمارے ہاں بھی مذہبی جماعتیں ہیں مگر اس کے باوجود ایسا کبھی نہیں ہوا تو پھر آپ مان لیجئے آپ آزاد نہیں غلام ہیں صاحب اتنی سی بات کا غصہ کر گئے اور مجھے بلاک کر گئے-

میں سوچنے لگا اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگا کہ نظریہ اقبال درحقیقت نظریہ ریاست مدینہ تھا اقبال رحمتہ اللہ علیہ تجھ پر اللہ کی کروڑوں رحمتیں نازل ہو تم نے ہمارے بڑوں کو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دکھا کر دو قومی نظریہ پیش کرکے وطن پاکستان دلوایا ورنہ آج ہم بھی ہندو کے غلام ہوتے-

Shares: