نوجوان نسل اور ترجیحات تحریر:سیدہ ام حبیبہ

0
43


قارئین محترم پاکستان 60 فی صد نوجوانوں پہ مشتمل ایسا ملک ہے جس کی بیشتر افرادی قوت بے کار ہے.
وجوہات مختلف بیان کی جاتی ہیں مگر آج جن نکات پہ قلم آزمائی کروں گی ان کو بہت قریب سے دیکھا ہے.
اگر ہم نوجوان نسل کو تین درجوں میں تقسیم کر لیں تو ہمارا مضمون عام فہم ہو جائے گا.
پہلا درجہ 9 سے 14 سال، دوسرا 15 سے 20 سال اور تیسرا 21 سے 30 سال تک کے افراد پہ مشتمل ہے.
بات کرتے ہیں اول الذکر نو خیز جوانوں کی جو بچپن کی دہلیز چھوڑ کر جوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں.ان نوجوانوں کی زیادہ تر تعداد چونکہ سکولوں سے وابستہ ہوتی ہے اس لیے انکی ترجیحات رحجانات اور دلچسپیاں اپنے ماحول کے مطابق ہوتی ہیں.
اس دور کے یہ نوجوان انٹرنیٹ کی دنیا میں اسقدر مگن ہیں کہ ان کو اپنے معاشرتی اور سماجی فرائض کی ہوش نہیں.یہ وقت کردار سازی اور تعلیمی اور معاشی مستقبل طے کرنے کا بہترین وقت مانا جاتا ہے جب سمت کا تعین کر کے تمام تر توانائیاں اسی مقصد کے حصول میں صرف کرنا ہوتی ہیں.
بد قسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے ان نوجوانوں کو ان کے حال پہ چھوڑ دیتے ہیں اور نصابی کتب کے رٹے اور گریڈز کے حصول تک مقید کر دیتے ہیں.
مثال لے لیجئے کہ ہر بچہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہے مگر شعبہ طب کے اندر موجود شعبہ جات سے آشنا نہیں کروایا جاتا.مختصراً گلہ کروں تو کیرئر کونسلنگ نہیں کی جاتی.
اس نسل کو Swaggerبننے کی دھن ہے اور ایسے میں بے راہروی کی جانب جانا نہایت Charming اور Adventure سے بھرپور بن جاتا ہے .
انگریزی الفاظ کے لیے معذرت مگر یہ الفاظ رائج ہیں کوئی متبادل لفظ حق ادا نہیں کر سکتا.
اس نسل کو سب سے بڑی بیماری بی ایف اور جی ایف کی لگ جاتی ہے.جو انکی ذہنی اور جسمانی صحت تباہ کر جاتی ہے.

ثانئ الذکر کی بات کی جائے تو یہ نسل خاصی آذادی حاصل کر چکی ہے اس طبقے کا تعلق کالجوں سے ہے.کالجوں کا ماحول سازگار ہو تو ان کو اپنی ترجیحات اور آزادی کے بل پہ بڑے بڑے کارنامے انجام دیتے ہیں.
مہم جوئی کے نام پہ سگریٹ نوشی اور شیشے کے چھلے بنانا..
جی ایف بی ایف کو اعلانیہ ساتھ گھومنا گھمانا شروع ہو جاتا ہے.
کیونکہ والدین کی اکثریت گھروں سے ہی ساری ذمہ داریاں پوری کرنے کے قائل ہیں تو انکو بھرپور مواقع کے ساتھ اپنا آپ اپنی ساکھ اپنی زندگی تباہ کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے.
موٹر سائکل گاڑی موبائل فون اور نت نئے لباس جنس مخالف کو متاثر کرنے کے لیے حاصل کرنا انکی تمام تر کوششوں کا مرکز ہوتا ہے.
ثالث الذکر طبقہ یو کہیے تو
دہری ذہنی اذیت سے دوچار ملتا ہے .جو ماضی سے نالاں اور مستقبل کے لیے متفکر اور حال کے متعلق بلکل بے بس مایوس نظر آتا ہے.
کیا کہیے کہ سب کچھ لٹا کے آئے ہیں کچھ بھی بچا نہیں کے مصداق ترجیحات کے انتخاب میں چُوک جاتے ہیں.
دیھاڑی دار اور مزدور بن جانے والے پھر ڈال روٹی چلا لیتے ہیں
جبکہ SWAG والے جوان اپنے سویگ کی توہین سمجھتے ہوئے نوکریوں کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں.
اپنے جوانوں کو افرادی قوت کے طور پہ استعمال کرنے کے لیے ہمارے پاس نہ تو منصوبے ہیں نہ فکر.
ان کو حالات کے تھپیڑے کھانے کے بعد سیانپ آ جاتی ہے کہ اس وقت اس کی بجائے یہ کیا ہوتا تو یہ نہ ہوا ہوتا…
مگر کب تک ہم اپنے نوجوانوں کو شتر بے مہار چھوڑ دیں گے؟
کب تک دبئی ترکی اور یورپ ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ لیتے رہیں گے؟
ہم خود کب ان کے لیے ترجیحات طے کرنا شروع کریں گے.
ان سوالوں کے ساتھ آپکی آراء کی منتظر

‎@hsbuddy18

Leave a reply