سپین کو ایک لڑکی کی عزت کی خاطر فتح کرنے والے طارق بن زیاد جنہوں نے ساحل پر پہنچتے کشتیاں جلا دی ےتھیں ان کو کیا علم تھا کہ آٹھ سو سال کے بعد مسلمان ذلت سے سپین سے واپس لوٹیں گے ۔
اگر ہم سپین کے عروج کا منظر دیکھیں تو اس کا آغاز آٹھ سو سال قبل جبل طارق پر جب طارق بن زیاد نے عیسائی بادشاہ راڈرک کو عبرتناک شکست دی موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد نے جلد ہی سپین کو فتح کر لیا اور عیسائی حکومت کا خاتمہ کر دیا
اس وقت امویوں کی حکومت تھی دمشق ان کا پایہ تخت تھا تو سپین دمشق کی خلافت کے زیر نگین آ گیا امویوں کے زوال کے بعد خلافت بنو عباس مین منتقل ہو گئی تو اسلامی ریاست کا پایہ تخت بغداد بن گیا ، اندلس کا حکمران اموی شہزادہ عبدالرحمن الداخل بن گیا وقت گزرتا گیا حکومتیں بدلتی رہیں اندلس کے مسلمان آہستہ آہستہ مضبوط سے مضبوط ہوتے گئے ۔
اندلس عالم اسلام کے لیے علم و ہنر کا مرکز بن گیا اس نے اپنے تعلیمی دور عروج میں الفارابی ، ابن رشد ، ابو القاسم الزہراوی اور ابن حزم جیسے علماء اور فضلاء پیدا کئے ۔
پھر وقت پلٹا مسلمانوں کے عروج کو زوال آنے پھر قدرت نے یوسف بن تاشفین کی صورت میں اہل اندلس کو سنبھلنے کا بہترین موقع دیا مگر مسلمانوں کے اپنے کردار کی وجہ سے زوال ان کا مقدر بن گیا تھا اموی شہزادے کی بہترین ریاست ٹکڑے ٹکڑے ہونا شروع ہو گئی اور کئی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔
سر قسطہ قشطالیہ الشبیلہ اور غرناطہ جیسے عظیم علاقے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلنا شروع ہو گئے اراغون اور قسطلہ کی مضبوط عیسائی ریاستیں وجود میں آ گئیں اراغون کی مشہور حکمران ملکہ ازابیلہ تھی جو تاریخ میں ملکہ ازابیلہ کے نام سے مشہور ہوئی دوسری طرف قسطلہ کا شاہ فرماں فرنڈیڈ تھا جو ایک متعصب عیسائی تھا یہ دونوں حکمران انتہا پسند اور مسلمانوں کے دشمن تھے یہ دونوں سپین میں مسلمانوں کا مکمل خاتمہ چاہتے تھے۔
ان دونوں نے 1469 میں اپنی ریاستوں کو باہم ملا کر آپس میں شادی کر لی 1469 میں اندلس کے مسلمان غرناطہ تک محدود ہو کر رہ گئے تھے اور مسلمان یہیں سے اپنی بقاء کی لڑائی میں مصروف تھے غرناطہ کا حکمران ابو الحسن تھا جو ایک نڈر اور لائق حکمران تھا اندلس کے مسلمانوں کو ایک لمبے عرصے بعد ایسا قابل شخص نصیب ہوا تھا اس کا بھائی محمد بن سعد الزاغل مالقہ کے علاقے کا حکمران تھا
جب اس نے محسوس کیا کہ عیسائی ان دونوں بھائیوں میں پھوٹ ڈلوانا چاہتے ہیں تو اس نے غرناطہ آکر اپنے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کر لی یوں ابو الحسن طاقتور ہو گیا جب فرنڈیڈ نے ابو الحسن سے خراج مانگا تو اس نے تاریخی الفاظ کہے
"غرناطہ کے تکسال میں عیسائیوں کو دینے کے لیے سکوں کی بجائے اب فولاد کی وہ تلوریں تیار ہونی ہیں جو ان کی گردنیں اتار سکیں”
یہ جواب سن کر فرنڈیڈ مبہوت سا رہ گیا اس وقت اس کے زیر قبضہ علاقہ سو لاکھ مربع میل کے قریب تھا جبکہ غرناطہ کی ریاست سمٹ کر چار ہزار مربع میل رہ گئی تھی یہ مختصر سا رقبہ بھی عسائیوں کے لیے تکلیف کا باعث تھا
وہ مسلمانوں کا مکمل خاتمہ چاہتے تھے اور انہوں نے ابو الحسن سے فیصلہ کن جنگ کا اردہ کیا آخرکار غرناطہ کے سرحدی مقام پر ابو الحسن اور فرنڈیڈ کا ٹکراو ہوا اہل غرناطہ قوت اور تعداد کے اعتبار سے عیسائیوں سے کمزور تھے مسلمانوں نے اندلس کے دفاع کے لیے سر تک کی بازی لگا دی، طارق بن زیاد کی یاد تازہ کرتے ہوئے فرنڈیڈ کو شکست فاش کر دیا ابھی ابو الحسن وہیں موجود تھا کہ اس کے ولی عہد ابو عبداللہ نے بغاوت کر دی اور غرناطہ کے تخت کا مالک بن بیٹھا
یہ جہاد میں مشغول مسلمانوں کے لیے بری خبر تھی اہل اندلس ابو الحسن کی قیادت میں سپین کے لیے نشاط ثانیہ کا خواب دیکھ رہے تھے ادھر ابو الحسن کو مجبور مالقہ میں پناہ لینا پڑی مسلمان اس نازک وقت میں غرناطہ کا دفاع کر رہے تھے اور ابو عبداللہ کی اقتدار کی ہوس نے غرناطہ کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا
دوسری طرف عیسائیوں کو مسلمانوں کی اس حالت میں مزید حوصلہ مل گیا ابو عبداللہ نے بےغیرتی کی انتہا کرتے ہو ابو الحسن پر پشت سے حملہ کر دیا ابو الحسن ایک تجربہ کار حکمران تھا اس نے ایک طرف عیسائیوں سے مقابلہ کیا دوسری طرف ابو عبداللہ کو غرناطہ جانے پر مجبور کر دیا بیٹے کی بغاوت نے ابوالحسن کو بیمار کر دیا اس پر زبردست فالج کا حملہ ہو گیا اس نے غرناطہ کی پشت پناہی چھوڑی اور اپنے بھائی الزاغل کو حکمران بنا کر اسے جنگ جاری رکھنے کا حکم دیا
الزاغل مسلمانوں کا نجات دہندہ بن جاتا مگر ابو عبداللہ پھر ایک مکروہ کردار لے کر سامنے آتا ہے فرنڈیڈ نے ابو عبداللہ کی خصلت پہچان لی وہ سمجھ گیا ابو عبداللہ مسلمانوں سے زیادہ اپنے اقتدار کا خواہش مند ہے اب فرنڈیڈ نے ابو عبداللہ کو الزاغل اور ابو الحسن کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا اور اسے یقین دلایا کہ وہ اسے غرناطہ کا وارث تسلیم کرتا ہے اور غرناطہ کا تخت حاصل کرنے کے لیے اس کی مدد کرے گا
ادھر جب مالقہ کے مسلمانوں نے یہ صورت حال دیکھی تو ابو عبداللہ کے خلاف بغاوت شروع کر دی اس پر فرنڈیڈ نے مالقہ کا محاصرہ کر لیا اہل مالقہ کی حفاظت کے لیے الزاغل مالقہ کی طرف روانہ ہو گیا غرناطہ خالی دیکھ ابو عبداللہ کو موقع مل گیا اور اس نے غرناطہ پر قبضہ کر لیا یہاں سے اہل غرناطہ درد ناک باب شروع ہوتا ہے
جس کا انجام اہل اندلس کی مکمل بربادی پر ختم ہواآٹھ سو سال پہلے وہ روشنی جو مسلمان لے کر پورے سپین میں پھیل گئے تھے وہ مسلمان راستہ بھول گئے افراد جب راستے بھول جائیں تو گھرانے برباد ہو جاتے ہیں مگر جب قومیں راستہ بھول جائیں تو سلطنتیں تباہ ہو جاتی ہیں غرناطہ پر ابو عبداللہ کا قبضہ مسلمانوں کی تباہی ثابت ہوایہ دیکھتے ہوئے مالقہ والوں نے فرنڈیڈ سے صلح کر لی اور لوشہ اور مالقہ پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گیا
ابو عبداللہ کو بیٹا کہنے والا مسلمانوں کی خیر خواہی کا دم بھرنے والا اپنے اصلی روپ میں آ گیا اور اس نے ابو عبداللہ سے کہا کہ وہ غرناطہ فرنڈیڈ کے حوالے کر دے ابو عبداللہ کو اپنی غداری کا انجام نظر آنے لگا اور اس نے اہل غرناطہ سے مشورہ کیا اہل غرناطہ موسی اور طارق کے فرزند تھے وہ ڈٹ کر لڑے اور فرنڈیڈ کو شکست فاش کر دیا اب فرنڈیڈ اور ازابیلا نے فیصلہ کن معرکہ کی تیاریاں شروع کر دیں1492کا سال آگیا اور اسی سال موسم گرما میں عیسائیوں کی افواج نے غرناطہ کا محاصرہ کر لیا
غرناطہ کے شمال میں پہاڑی سلسلہ تھے اور محاصرے کے دوران اہل غرناطہ کو مدد ملتی رہی مگر سردیاں شروع ہوتے ہی پہاڑوں پر برف باری شروع ہو گئی اور غرناطہ کو کمک ملنا بند ہو گئی شہر میں اشیاء خورد نوش کی قلت ہو گئی اہل غرناطہ اب بھی عیسائیوں پر فیصلہ کن حملہ کرنے پر آمادہ تھے غرناطہ کا سپہ سالار ’موسیٰ بن ابی غسان‘ افسانوی شہرت کا حامل کردار تھا
وہ آخری سپاہی تک لڑنا چاہتا تھامگر ابو عبداللہ ذہنی طور پر شکست قبول کرچکا تھا وہ اور اس کے اکثر امرا فرنڈیڈ سے صلح کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ اسی طرح وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرسکیں گےامراء سلطنت سازش میں مصروف ہو گئے پس پردہ عیسائیوں سے رابطے قائم کرنے لگے ان سازشی عناصر کا سرغنہ وزیر اعظم غرناطہ ’ابوالقاسم‘ تھا فرنڈیڈنے غرناطہ پر قبضے کی صورت میں اس کوغرناطہ کا اہم عہدہ دینے کا وعدہ کر لیا
ابو عبداللہ کی ذہنی شکست میں ابو القاسم کا مرکزی کردار تھا بلاآخر ابو عبداللہ نے ابو القاسم کو خفیہ سفارتکاری کی اجازت دے دی صلح کی شرائط طے کرلی گئیں بظاہر ان شرائط میں مسلمانوں کے لیے ہر قسم کا تحفظ یقینی بتایا گیا تھا مگر بعد میں عیسائیوں نے اس پر کتنا عمل کیا وہ ایک حقیقت ہے معاہدے کے تحت ابو عبداللہ کو البشرات کے علاقے میں ایک جاگیر دے دی گئی
آخر کار وہ تاریخی دن آگیا جسے آج تک تاریخ اسلام کا طالب علم سیاہ دن سے تعبیر کرتے ہیں 2جنوری 1492 کو غرناطہ کی چابیاں ابو عبداللہ نے اپنے ہاتھوں سے فرنڈیڈ اور ازابیلا کو پیش کر دیں پادری اعظم نے قصر الحمراء پر لہراتا صدیوں پرانا پرچم اسلامی اتار کر صلیب کو نصب کروا دیا اس طرح سقوط غرناطہ کے ساتھ ساتھ اندلس میں مسلمانوں کا آٹھ سو سالہ حکمرانی کا سورج بھی غروب ہو گیا
سو سال کے اندراندرعیسائیوں کے ظلم و ستم کے باعث لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے مراکش اور شمالی افریقہ میں آباد ہو گئے ان کے قبائل آج بھی وہاں مہاجر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور بیشمار اہل ایمان عیسائی ظلم و ستم کی وجہ سے عیسائی بن گئے یوں ایک غدار اور بزدل حکمران ابوعبداللہ کی وجہ سے اہل اندلس کو یہ دن دیکھنا پڑا
ثناء صدیق








