آج کے دن لیکن آج سے ٹھیک 90 سال پہلے جب کشمیر کے اس نوجوان قدیر نے اپنے مسلمان ھونے کا فرض اس طرح نبھایا کہ میرے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی روز محشر اسے ھر صورت اپنی بانہوں میں لیں گے، کہ جس کی استقلال کو جناب صدیق نے بوسہ دیا ھو گا، کہ جس کی جرات پر جناب عمر فاروق کا عدل بھی جلال میں آیا ھو گا کہ جس کی ھمت کو جناب عثمان نے داد شجاعت سے نوازا ھو گا ، کہ جس کے عظم کو جناب علی نے شرف قبولیت بخشا ھو گا
میں کیوں نہ آج 90 سال بعد بھی اس نام پر رشک کروں اس دن پر جھوم اٹھوں ان ناموں پر قربان جاؤں اور ان فرعونوں کو کیوں نہ بتلاؤں جنھوں نے اپنے ھر پر فتن دور میں میرے اسلام کو ختم کرنا چاھا، لاکھوں وجود ختم کر دییے عزتیں پامال ھوتی رھیں، نوجوان مذبح خانے پہنچتے رھے لیکن وہ جذبہ جس نے آج سے 90 سال پہلے میرے قرآن کی بے حرمتی پر انگڑائی لی تھی آج وہ جذبہ لاوا بن کر ابل رھا ھے اج تم پاس سے گزرو تو بھسم ھو جاؤ گے۔۔۔
اب باری تمھاری ھے ھم نے تو ایک صدی اس ظلم و جبر کو اپنے سینوں پر سہا ھے لیکن اب باری تمھاری ھے تم جس آگ سے کھیلے ھو اب اس آگ میں جلنے کی ذمہ داری تمھاری ھے۔۔۔
تمھیں تاریخ نے بتلایا نھیں کہ۔۔۔
تم نے جب کشمیر میں اپنے ڈوگرا میں میرے قرآن کو جلایا تھا تم نے جب میرے اسلام سے اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کیا تھا۔ تم نے جب قرآن مجید کو جلا کر خود کو خوب اطمینان بخشا کہ طاقت کے نشے نے تمھیں چور کر دیا لیکن تمھیں وہ نوجوان خوب صورت وجیہ چہرہ تاریخ نے دکھلایا نھیں کہ جو شیر کی سی پھرتی سے تم پر لپکا تھا کہ جس نے آواز لگائی تھی اب ظلم نھیں سہنا اب چپ نھیں رھنا یہ وقت ھے اپنا حق لینے کا اور اب سے ھر گزرتا وقت تم پر بھاری ھو گا۔۔۔
لیکن تم بزدل نکلے تمھیں میرے رب کونین کے کلام نے اس قدر خوف میں مبتلا کر دیا کہ جب تمھارے ڈوگرا راج کے سامنے اذان کی صدا بلند ھوئی کہ…
اللہ اکبر اللہ اکبر اور ساتھ ھی دوسری آواز ایک سنسناتی گولی کی تھی اور صدا بلند کرنے والے کو چیرتی گزر گئی…
پھر اسی مجمعے میں سے دوبارہ آواز آئی اشھدالااللہ الاللہ، اشھدالااللہ الاللہ پھر کہیں سے بندوق سیدھی ھوئی اور صدائے اشھداللہ کو خاموش کرا گئی…
اسی لمحے کسی کونے سے پھر سے ننھی آواز اٹھی اشھدانامحمدالرسول اللہ اشھدانامحمدالرسول اللہ اور ایک بار پھر ایک گولی گردن میں پیوست ھوئی اور ننھی آواز دب گئی…
کیا ھی منظر تھا کہ حئیٰ الصلوٰۃ حئیٰ الصلوٰۃ کی گونج اٹھی اور اسی لمحے سینے سے لہو بہا۔۔۔
جذبہ دوراں نہ رکا اور حئیٰ اللفلاح حئیٰ اللفلاح باآواز بلند سنائی دیا پھر ایک گولی چلی اور سر میں جا گھسی کہ ساتھ ٹھہرے قدرے کمزور وجود مگر موت سے بے خوف بچے نے اپنے چہرے سے لہو صاف کیا اور بول اٹھا اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہَ الاللہ اور اپنا چہرہ پھر نہ صاف کر سکا…
اور اس طرح ایک اذان کے مکمل ھونے کی قیمت 22 جانوں کا نذرانہ تھا۔۔۔
ایک ایسا نذرانہ کہ جس کا کوئی مول نھیں کہ جس پر کوئی دھول نھیں کہ جس پر کچھ وصول نھیں ایک ایسا کھرا نذرانہ کہ جس نے دنیائے نا حق کو بتلایا کہ۔۔۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ھے
اور تم آسان سمجھتے ھو مسلماں ھونا
نادان نے سمجھا کہ اب تاریخ نہیں بدلے گی اب یہ لمحات دوبارہ نہیں آئیں گے اب کوئی وادی کشمیر میں قرآن ھاتھ میں نہیں تھامے گا کہیں کسی گنبد پہ لگے سپیکر سے صدائے تکبیر بلند نہ ھو گی کہیں سے کوئی آزادی کی بات نہیں کرے گا کسی کا جذبہ ” ھے حق ھمارا آزادی ھم لیکر رہیں گے آزادی کیلئے نھیں لٹے گا کوئی زبان تیرا میرا رشتہ کیا لاالہ الاللہ نہیں بولے گی…
کیونکہ اب ان میں وہ حوصلہ ھی نھیں اب ان 22 جوانوں کے لاشے دیکھ کر وادی کشمیر کی مائیں بیٹے پیدا کرنا بند کر دیں گی، خود کو بانجھ کر لیں گی، اپنی جوانی ھماری عیاشیوں کے سپرد کر دیں گی لیکن۔۔۔
لیکن یہ کیا ھوا کہ آج 90 سال بعد بھی مائیں بانجھ نہ ھو سکیں بیٹے جننا بند نہ ھو سکے، عزتوں کے محافظ ببانگ دھل سامنے آ ٹھہرے۔۔۔
کسی نے موسیٰ کو پیدا کر دیا
کسی نے ذاکر کو جنم دے دیا
کسی نے ریاض نیکو کو تیار کر دیا
تو کسی نے ایک برھان وانی ھم سب پر مسلط کر دیا۔۔۔
تم نے ایک صدی لگا دی جذبہ حریت کو دبانے میں لیکن وادی کشمیر میں آزادی کی روح فضاء میں معطر ھو گئی۔ وہ ایک اذان جسے تم نے خود پر بھاری سمجھا اور 22 جوان لاشے گردا دئیے آج اسی ایک اذان کا کرشمہ کہ وطن کے گوشے گوشے سے آزادی کی صدائیں بلند ھوتی ھیں۔۔۔
کوئی شک نھیں کہ آج تم ھار گئے ھو
تم نے گولیوں سے وجود چھلنی کئے
تم نے بارود سے کھیل کر ھم کو آزما لیا
ھمیں نظریات سے ختم کرنے کی کوشش کی لیکن تم ھار گئے۔۔۔
آج دیکھو ھر دن ھر لمحہ کو بہ کو ہر زبان یا اللہ بسم اللہ اللہ اکبر کی صدا بلند کرتی ھے..۔