اور زندگی کا تمام بجٹ ہم نے موت پر لگا دیا

0
63

آج 14 اگست ہے اور آج ہی کے دن اٹیمی طاقت رکھنے والا ہمارا ملک پاکستان آزاد ہوا تھا۔ زندگیوں کو بچانے کےلیے حاصل کیے گئے ملک میں بدقسمتی سے سارا بجٹ موت پر لگ رہا ہے۔ ہمارے پاس کیا کیا نہیں ہے، گولی، بندوق، بارود اور اٹیم بم، موت کا سب سامان ہے، بس ہے نہیں تو زندگی بچانے کے لیے کچھ نہیں۔ اور یہی حال ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا بھی ہے۔ اس حال کے یہ شاید دونوں ہی زمہ دار ہیں۔
جب کورونا نے زندگی کا امتحان لیا تو ان دونوں ایٹمی پڑوسی ملکوں کے پاس نہ آکسیجن سیلینڈرز تھے اور نہ وینٹی لیٹرز، مگر دونوں ممالک کی نصابی کتب ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی داستانوں سے بھری پڑی ہیں۔
ہمارے ہسپتالوں کی حالت ایسی ہے کہ انکو خود ابھی علاج کی ضرورت ہے۔صحت ہے تو جہاں ہے،مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اس شعبے کی حالت زار پر رونا آتا ہے۔ پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقہ جات میں جہاں دیگر سہولیات کی قلت تو ہے ہی مگر وہاں پر طبی سہولیات کی یہ حالت ہے کہ دوران زچگی خواتین اور نومولود بچوں کی اموات ہوجاتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود ہم کبھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں کا بجٹ صرف موت بنانے کے لیے صرف کر رہے ہیں۔

جان لیوا ان حادثات کے بعد بھی سانحہ تو یہ ہے کہ ہم موت کے تابڑ توڑ حملوں کے باوجود ایک دوسرے پر الزام لگانے میں مصروف ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کافر قرار دینے کے سرٹیفیکیٹس بانٹنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ دنیا میں کورونا جیسی مہلک وبا آنے کے بعد جب تمام ممالک اسکے علاج کا سوچ رہے تھے تو تب ہم اس لڑائی میں الجھے پڑے تھے کہ کورونا اہل تشیعوں نے پھیلایا ہے۔جب کہ دوسرا گروہ یہ الزام تبلیغی جماعت پر دھر رہا تھا۔ اور پھر ہم نے اسی ضد میں خوب چلے لگائے خوب جلوس نکالے۔

اس مارا ماری اور زورا زوری کا نتیجہ کورونا کی تیسری اور زیادہ خطرناک لہر کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ مسجد کے سپیکرز ، میڈیا کی خبریں اور سوشل میڈیا کی ٹائم لائنز ہر وقت موت کا اعلان کرتی نظر آتی ہیں۔ مگر اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ اب بھی ہم میں سے بیشتر کورونا کے انکاری ہیں۔

اعجاز الحق عثمانی
@EjazulhaqUsmani

Leave a reply