نئی دہلی :واشنگٹن :بھارت کے روس سےMiG-29َ،روسی ہیلی کاپٹراورڈیفنس سسٹم ایس 400 کے آرڈرزمنسوخ:دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا یہ بحث پچھلے کئی دن سے چل رہی تھی کہ روس کے یوکرین پر حملے کے جواب میں امریکی پابندیوں کے بعد کسی بھی ملک کے لیے روس سے فوجی سازوسامان کی خریداری جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا،اس حوالےسے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو نے بدھ کو سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کو بتایا کہ ” پچھلے چند” ہفتوں میں، "جو کچھ ہم نے ہندوستان سے دیکھا ہے اس میں یہ چیز ثابت ہوگئی ہےکہ بھارت نے روس سے تمام اسلحہ خریدنے کے معاہدے ختم کردیئے ہیں
نئی دہلی میں رابطہ کرنے پر وزارت دفاع کے ترجمان نے ان دعووں کی تردید کرنے سے انکار کردیا ہے جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ واقعی معاملات کچھ اس طرف جارہے ہیں ۔ لو، جنہوں نے ہندوستان کو ایک "واقعی اہم سیکورٹی پارٹنر” کہا، وہ "روسی جارحیت” پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے چند گھنٹوں بعد سینیٹ میں بات کر رہے تھے، جہاں سے ہندوستان، چین، پاکستان، بنگلہ دیش سمیت 34 دیگر ممالک کے ساتھ۔ سری لنکا غیر حاضر رہے
خاص طور پر یہ پوچھے جانے پر کہ کیا، بھارت کی عدم شرکت کے پیش نظر، بائیڈن انتظامیہ روس سے S-400 فضائی دفاعی نظام کی خریداری کے لیے دہلی پر CAATSA پابندیاں لگانے پر غور کر رہی ہے ،
ان کا کہنا تھا کہ CAATSA یا Countering America’s Adversaries through Sanctions Act 2017 کا امریکی قانون ہے جو ایران، شمالی کوریا اور روس کو نشانہ بناتا ہے اور ان کے ساتھ کاروباری لین دین کرنے والے کسی بھی ملک یا ادارے کے خلاف درخواست کی جا سکتی ہے۔
2020 میں امریکہ نے ترکی کو S-400 خریدنے پر پابندی لگا دی۔ دہلی نے 2018 میں ماسکو کے ساتھ S-400 کے لیے 5.3 بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے، اور روس نے نومبر 2021 میں بھارت کو سسٹم کی فراہمی شروع کی۔
دہلی کو یقین تھا کہ بائیڈن انتظامیہ S-400 سودے کے لیے ہندوستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو دیکھتے ہوئے مستثنیٰ قرار دے گی، کواڈ ممالک کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہوگا مگریہ توقعات درست ثابت نہ ہوئیں
تاہم، یوکرین پر روس کے حملےکے بعد ماسکو کو سزا دینے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی نئی پابندیاں، اور تنازعہ میں ہندوستان کی غیر جانبدارانہ پوزیشن نے S-400 معاہدے کو خطرے میں ڈال دیا ہے
امریکی ترجمان کا کہنا تھا کہ "میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بائیڈن انتظامیہ CAATSA قانون کی پیروی کرے گی اور اس قانون کو مکمل طور پر نافذ کرے گی اور جب ہم ان میں سے کسی کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو کانگریس سے مشورہ کریں گے۔ کیا، بدقسمتی سے، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ صدر یا (سیکرٹری آف اسٹیٹ) روس پر یا پابندیوں کے معاملے پر، یا اس فیصلے پر روس کا یوکرین پر حملہ برداشت کرے گا
لو نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے ابھی تک CAATSA کے تحت ہندوستان پر پابندیاں لگانے کا فیصلہ کرنا ہے۔لیکن امریکہ کو یقین ہے کہ بھارت روس سے دوستی کی بجائے امریکہ سے وفا کو ترجیح دے گا
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "بھارت اس وقت ہمارا واقعی ایک اہم سیکورٹی پارٹنر ہے۔ اور یہ کہ ہم اس شراکت داری کو آگے بڑھانے کی قدر کرتے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ روس کو جس شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ ہندوستان کو اب روس سے دور ہونا پڑے گا اور ہندوستان آگے بڑھنا چاہتا ہے
ایک سوال کے جواب میں لو کا کہنا تھا کہ بھارت کے حوالے سے ایک ابہام بھی تھا اور خطے کی اسٹریٹیجک صورتحال بھی کچھ ایسی تھی کہ بھارت کی ضروریات کے پیش نظر کچھ آزادیاں تھیں لیکن اب ماضی کو بھول کرنئے معاہدوں کی ضرورت ہے
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "سیکرٹری اسٹیٹ ٹونی بلنکن اس جنگ کے فرنٹ لائنز پر رہے ہیں۔ صدر، محکمہ خارجہ کے دیگر اعلیٰ حکام گزشتہ مہینوں کے دوران یوکرین پر اپنے ہندوستانی ہم منصبوں کے ساتھ انتہائی سنجیدہ اعلیٰ سطحی بات چیت کر رہے ہیں،‘‘ لو نے کہا، ہندوستان کی طرف سے تمام ریاستوں سے اقوام متحدہ کی پابندی کی اپیل کو نوٹ کرتے ہوئے چارٹر، خودمختاری اور دیگر ریاستوں کی علاقائی سالمیت کا احترام، اور "چھوٹے اقدامات” کے اشارے کے طور پر یوکرین کو انسانی بنیادوں پر سامان بھیجنا امریکہ کی پالیسیوں کو تائید ملنے کے برابر تھی
انہوں نے کہا کہ کھرکیو کی بمباری میں ہندوستانی طالب علم کی ہلاکت نے ہندوستان میں رائے عامہ کو روس کے خلاف بھی موڑنا شروع کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یوکرین میں روس کی بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی طالبعلم کے معاملے پر بھارت اور روس کے درمیان کافی سردمہری دکھائی جارہی ہے جس کا واضح مطلب یہی کہ اب بھارت روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کرنے کی بجائے امریکہ کی طرف ہاتھ بڑھائے گا جس کا واضح مطلب خطے میں اب بھارت اور روس کے درمیان اب تعلقات وہ نہیںجو ماضی میں ہوا کرتے تھے
اس موقع پر یہ بھی یاد رہے کہ ان سارے حالات کی تبدیلی اس وقت سامنے آئی جب وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے دورہ روس کے درمیان روس پر واضح کیا تھا کہ اب اسے اپنے ماضی کے وہ وطیرے بدلنے ہوں گے اور اگر روس پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے چاہتا ہے تو پھرپاکستان کے مخالفین کی حمایت سے بھی دور رہے ، اس ملاقات کے بعد حالات اچاک بدل گئے ، جس کے نتیجے میںآج بھارت اپنی کئی دہائیوں پر روس سے دوستی کو خیرآباد کہہ دیا تھا








