پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی شاندار کارکردگی،3 کھرب 75 ارب سے زائد کی ریکوریاں
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے آڈیٹر جنرل کی نشاندہی پر بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں میں ملوث مختلف افراد اور اداروں سے 3 کھرب 75 ارب سے زائد کی ریکوریاں کی ہیں،
پی اے سی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ موثر پارلیمانی نگرانی اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں میں مالیاتی نظم و نسق کو بہتر بنایا جائے گا۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق 15ویں پبلک اکائونٹس کمیٹی 20 دسمبر 2018ءکو قائم ہوئی، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اس چیئرمین منتخب ہوئے، بعد ازاں ان کی جگہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی رانا تنویر حسین نے پی اے سی کے نئے چیئرمین کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
موجودہ پی اے سی کو 2010-11ءسے 2016-17ءتک کی سات سالوں کی زیر التواءآڈٹ رپورٹ ورثہ میں ملی ہیں جبکہ 2017-18ءسے 2019-20ءکی تین آڈٹ رپورٹس جائزہ لینے کیلئے پی اے سی کی سات ذیلی کمیٹیوں کو بھجوائی گئیں۔ پی اے سی کے فیصلوں پر عملدرآمد کی نگرانی کیلئے بھی ایک ذیلی کمیٹی عملدرآمد مانیٹرنگ کمیٹی کے نام سے تشکیل دی گئی۔
مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لینے والی ذیلی کمیٹی میں مسلم لیگ (ن) کا کوئی رکن شامل نہیں کیا گیا۔ خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق پی اے سی سیکرٹریٹ ذرائع کے مطابق پی اے سی کے سامنے اس وقت سابقہ ادوار کے 29750 آڈٹ اعتراضات زیر جائزہ ہیں۔ اب تک موجودہ پی اے سی اور ذیلی کمیٹیوں کے 225 اجلاس ہو چکے ہیں جن میں 4716 آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا جا چکا ہے جن میں سے 41 آڈٹ اعتراضات نیب جبکہ 24 ایف آئی اے کو بھجوائے جا چکے ہیں۔ 1318 آڈٹ اعتراضات محکمانہ آڈٹ کمیٹیوں کو واپس بھجوائے گئے ہیں۔
قومی اسمبلی میں پی اے سی کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں لانے کے حوالہ سے خصوصی ذیلی کمیٹی کی سفارشات پر مبنی رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سے بھی استدعا کی گئی ہے کہ اس حوالہ سے کارروائی عمل میں لائی جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں میں آڈیٹر جنرل کے دائرہ کار کو وسعت دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے اور محکمانہ آڈٹ کمیٹیوں کو زیادہ سے زیادہ فعال کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
پی اے سی سیکرٹریٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک پبلک اکائونٹس کمیٹی نے 3 کھرب 75 ارب 94 کروڑ سے زائد کی ریکوریاں کی ہیں جن کی آڈیٹر جنرل نے تصدیق کی ہے