افغان طالبان نے پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ دوحہ معاہدے پر امریکہ کے ساتھ دستخط کیے ہیں، افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی-

باغی ٹی وی : وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کرتے ہوئے کہاکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت پڑوسیوں کے حقوق پرعمل نہیں کرتی اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پابند ہے،قطرکے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے امریکہ کے ساتھ ہونےوالےمعاہدے میں طالبان کے نمائندوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کو جگہ نہیں دیں گےساتھ ہی اپنےملک کی سرزمین دوسرےممالک کےخلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔


وزیر دفاع خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ 40-50 سالوں سے 50-60 ملین افغان باشندے اپنے حقوق کے لیے پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں لیکن اس کے برعکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشتگرد اس سرزمین پرموجود ہیں، جن کا تعلق افغانستان سے ہے یہ صورتحال جاری نہیں رہنی چاہیے، پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کیلئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائے گا۔

قرآن پاک کی بے حرمتی: طالبان حکومت نےافغانستان میں سویڈن کی تمام سرگرمیاں معطل کردیں

اس حوالے سے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے برطانوی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دوحہ معاہدے پر امریکہ کے ساتھ دستخط کیے ہیں، افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور پاکستان ایک برادر اور مسلم ملک ہے، ہم اسے ایسا ہی سمجھتے ہیں، اگر پاکستان کی حکومت ان کو ثبوت دیتی ہے تو وہ پاکستانی طالبان کے خلاف اقدامات کریں گے پاکستانی فریق نے ملاقاتیں بھی کی ہیں-

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے جب پوچھا گیا کہ اگر پاک فوج افغانستان کی سرزمین پر دوبارہ حملہ کرتی ہے تو ان کا کیا ردعمل ہوگا؟انہوں نے جواب دیا کہ ہم سنجیدگی سے اس کی روک تھام کرتے ہیں اور کسی کو اپنی سرزمین پر تجاوزات کی اجازت نہیں دیتے ان مذاکرات کے لیے پاکستانی طالبان کے نمائندے شمالی وزیرستان سے آئے تھے اور اب جب کہ یہ مذاکرات بے نتیجہ ہو چکے ہیں، مذاکرات کی ثالثی بھی ختم ہو گئی ہے۔

پاکستان کو اپنا مسئلہ خود حل کرنا چاہیے،افغان طالبان

دریں اثنا، افغان طالبان کے ترجمان بیح اللہ مجاہد نے ایک حالیہ بیان میں دعویٰ کیا کہ عبوری حکومت اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے رہی ہے اور یہ کہ ٹی ٹی پی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کا مسئلہ ہے۔

واضح رہے کہ حال میں ہی بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں 9 پاکستانی فوجی شہید ہوئے تھے جبکہ پاک فوج کے سربراہ نے کہا تھا کہ فوج کو افغانستان میں پاکستانی طالبان تحریک کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا چاہیے۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کے لیے دستیاب محفوظ پناہ گاہوں اور کارروائی کی آزادی پر شدید تحفظات ہیں-

ترکیہ نےسویڈن کی نیٹو رکنیت کیلئےحمایت کر دی

آرمی چیف کے حوالے سے کہا گیا کہ ’یہ توقع ہے کہ عبوری افغان حکومت حقیقی معنوں میں اور دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کے مطابق اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی،ج پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں میں افغان شہری ملوث تھے۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کی شمولیت ایک اوراہم تشویش ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہےاس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے موثر جواب دیا جائے گا-

انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں بلاتاخیر جاری رہیں گی اور مسلح افواج ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے تک آرام سے نہیں بیٹھیں گی۔ آرمی چیف کے بیان میں ٹی ٹی پی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے افغان طالبان کی جانب سے تعاون کی کمی کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا گیا۔

اسلامی تعلیمات سےمتاثرہوکراسلام قبول کیاہے،سیر کے دوران آیا صوفیا میں اسلام قبول کرنے والا روسی …

Shares: