پاکستان کیخلاف امریکی سازشیں ایک بار پھر عروج پر، تحریر:عفیفہ راؤ

0
59

کیسے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔آنے والے دنوں میں کونسی اہم شخصیت پاکستان کا دورہ کرنے آ رہی ہیں؟کیا پاکستان اب امریکی دباو برداشت کرے گا یا ہمیں کوئی نئی حکمت عملی اپنانے کی کوشش کرنی ہو گی؟

اس خطے میں جب بھی کوئی تناو کی صورت حال ہوتی ہے یا شدت پسندی سر اٹھاتی ہے تو اس کا ملبہ ہمیشہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے اس لئے اس حوالے سے امریکا اور پاکستان کے درمیان اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ امریکی حکام پہلے بھی پاکستان پر کئی بار دوہرا معیار اپنانے کا الزام لگاتے رہے ہیں لیکن ہمارے وزيراعظم عمران خان اس تاثر کی سختی سے نفی کرتے ہوئے ہمیشہ ہی یہ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک کو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان خود شدت پسندی سے بری طرح سے متاثر ہوا ہے اور افغانستان میں اپنی ناکامیوں کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بنانا چاہیے۔اپنے حالیہ ترک ٹی وی کو دئیے جانے والے انٹرویو میں بھی عمران خان نے بار بار یہی بات دہرائی تھی کہ سرد جنگ میں پاکستان امریکہ کے ساتھ تھا افغان جنگ میں ہمیں 150 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اپنی غلطی سے نظریں ہٹانے کیلئے ہمیں قربانی کا بکرا بنانا تکلیف دہ ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ صدرجوبائیڈن اس وقت بہت زیادہ دباﺅ میں ہیں امریکہ طالبان کی حکومت آنے کے بعد پریشانی کا شکار ہے اور امریکی قربانی کے بکرے کی تلاش میں لگے ہیں۔
ایک اور اہم بات جو وزیر اعظم عمران خان پچھلے کافی عرصے سے دہرا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ میں جنگ سے مسئلے کے حل کا مخالف ہوں مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں ہمارے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق تو اس وقت افغان سر زمین پر مذاکرات ہو رہے ہیں اس کے بعد جو طالبان ہتھیار ڈالنے پر رضامند ہوجائیں گے تو انہیں معافی مل سکتی ہے۔ بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں۔ لیکن امریکہ کی ہم سے جو توقعات ہیں وہ اس کے بالکل الٹ ہیں وہ یہ چاہتا ہے کہ ہم انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کریں۔ یہاں تک کہ پاکستان کوDo moreکے لئے مجبور کرنے امریکی محکمہ خارجہ کی ڈپٹی سیکرٹریWendy Shermanپاکستان کے دورے پر بھی تشریف لا رہی ہیں وہ سات اور آٹھ اکتوبر کو اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے اہم ملاقاتیں کریں گی۔ جو بائیڈن کے صدر بننے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد سے کسی امریکی عہدیدار کا یہ اسلام آباد کا پہلا دورہ ہو گا۔

Wendy Shermanاپنے اس طویل دورے کے لیے امریکا سے نکل چکی ہیں اور اس سلسلے میں ابھی وہ سوئٹزر لینڈ میں ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہندوستان اور ازبکستان کا دورہ بھی کرنا ہے۔جبکہ پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی صحافیوں سے بات چیت کے دوران وہ ہمیں سنا چکی ہیں کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ ایک مضبوط شراکت داری کا خواہاں ہے اور ہم تمام عسکریت پسندوں اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلا امتیاز تسلسل کے ساتھ کارروائی کی توقع کرتے ہیں۔ویسے تو انہوں نے پاکستان کے موقف کا بھی اعتراف کیا کہ دہشت گردی سے پاکستان کا بھی کافی نقصان ہوا ہے۔ ہمارے دونوں ممالک دہشت گردی کی لعنت سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور ہم تمام علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گردی کے خطرات کے خاتمے کے لیے تعاون کی کوششوں کے منتظر ہیں۔مطلب ہماری تعریف کے ساتھ ساتھ ہمیں آنکھیں بھی دکھائی جا رہی ہیں اور کچھ دن پہلے امریکی سینیٹ میں جو بل پیش ہوا تھا وہ بھی آپ کو یاد ہو گا کہ پاکستان کے خلاف پابندیاں بھی لگائی جا سکتی ہیں تو اس وقت امریکہ ہر لحاظ سے ہم پر پریشر ڈالنا چاہتا ہے۔اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس کے پیچھے ایجنڈا کیا ہے؟ دراصل امریکہ افغانستان سے نکل تو گیا ہے لیکن جانے سے پہلے اس نے سوچا تھا کہ افغان فوج جس کو ہم ٹریننگ دیتے رہے ہیں اورافغان حکومت جس کو ہم اتنے سالوں تک پالتے رہے ہیں تو یہاں سے جانے کے بعد بھی ہم اس فوج اور حکومت کے زریعے افغانستان میں اپنا تسلط برقرار رکھیں گے یہاں سے ان فوجیوں کے زریعے انھیں ہر طرح کی جاسوسی ہوتی رہے گی۔ لیکن امریکہ کے نکلتے ہی معاملہ الٹ گیا وہ فوج بھی ڈھیر ہو گئی۔ حکومتی عہدیداران بھی فرار ہو گئے اور تمام جاسوسوں کے اڈے بھی بند ہو گئے حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ صرف امریکہ ہی نہیں امریکہ کے چمچے انڈیا کو بھی دم دبا کر بھاگنا پڑا۔ تو امریکہ کا انڈیا والا بھی راستہ بند ہو گیا۔حالانکہ انڈیا دوبارہ سے اپنی اوچھی حرکتوں پر اتر آیا ہے وہ انڈیا جانے والے افغانوں کو ٹریننگ دے کر اپنے جاسوس کے طور پر دوبارہ افغانستان بھیجنا چاہتا ہے۔ لیکن میں بتا دوں کہ یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد کی مثال آپ کے سامنے ہے کہ ایک وقت تک امریکہ یہ سوچتا رہا کہ شاید یہ کوئی فیک اکاونٹ ہے یا پھر صرف نام استعمال کرکے یا کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کراس اکاونٹ کو چلایا جا رہا ہے۔ لیکن وہ کبھی ذبیح اللہ مجاہد کو ٹریس نہیں کر سکے۔ امریکہ جو کہ سپر پاور تھا وہ بیس سال میں اگر طالبان کو کنٹرول نہیں کر سکا تو انڈیا کس کھیت کی مولی ہے۔ اس لئے اب انڈیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ طالبان کے خلاف اس طرح کی سازشیں کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ان کے پاس اپنا ایک انٹیلیجنس کا نیٹ روک ہے۔

اب کیونکہ انڈیا بھی افغانستان سے باہر ہو گیا تو امریکہ کو پاکستان نظرآگیا۔۔ پاکستان کے تعلقات بھی طالبان کے ساتھ بہتر ہیں۔ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا اس لئے اب امریکہ سوچ رہا ہے کہ کیوں نہ اب اپنے مفادات کے لئے پاکستان کو استعمال کیا جائے۔اور سب سے بڑا مفاد جو امریکہ اس وقت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ طالبان کی حکومت میں دیگر دھڑوں کو بھی حکومت کا حصہ بنایا جائے۔یہی وجہ ہے کہ اب تک امریکہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کر رہا اور اس کا سیدھا سا مقصد یہ ہے کہ طالبان کی حکومت زیادہ طاقتور نہ ہو سکے ظاہری بات ہے جب کئی گروپس مل کر مخلوط حکومت بنائیں گے تو طالبان اپنے نظریات کو اس طرح سے لاگو نہیں کر سکیں گے جو وہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ اپنی اندرونی لڑائیوں میں الجھے رہیں گے جس کے بعد امریکہ کہہ سکے گا کہ دیکھا ہم نے بیس سال تک جو جنگ کی وہ بالکل ٹھیک تھی کیونکہ طالبان امن پسند لوگ نہیں ہیں۔اور امریکہ کی اس تشویش کے پیچھے بھی اصل میں بھارت ہے۔ کیونکہ اسے ڈر ہے کہ طالبان کے افغانستان میں آنے سے کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو بھی طاقت ملے گی۔ اس لئے وہ امریکہ کے زریعے دباو ڈلوا رہا ہے کہ پاکستان کو تمام انتہا پسند گروہوں کے خاتمے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہمیں دوبارہ سے ایک جنگ میں جھونک دیا جائے اور ہمارے خلاف ہر جگہ پراپیگنڈہ کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تمام دباو پاکستان کے چین سے بڑھتے اور مضبوط ہوتے تعلقات کی سزا بھی ہے کیونکہ پاکستان اور چین کی دوستی نہ تو امریکہ کو برداشت ہے اور نہ ہی انڈیا کو۔مغربی ممالک کو ویسے ہی آجکل یہ فکر لاحق ہے کہ کہیں افغانستان پھر سے شدت پسندوں کا ٹھکانہ نہ بن جائے۔ حالانکہ طالبان کی قیادت نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔اس لئے ہمیں اپنے تجربات سے سیکھنا چاہیے کہ کیسے افغان سوویت جنگ میں سوویت یونین کی شکست کا یقین ہونے کے ساتھ ہی امریکہ نے اپنے قریب ترین اتحادی پاکستان پر تجارتی پابندیاں عائد کر دی تھیں اور اسے بالکل تنہا چھوڑ دیا تھا۔ جب نائن الیون کے بعد امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑی اس وقت بھی پاکستان امریکی پابندیوں کی زد میں تھا۔ افغانستان کے حوالے سے امریکا پاکستان کے کردار پر نہ صرف تنقید کرتا رہا ہے بلکہ امریکی حکام ہم پر یہ الزام بھی لگاتے رہے ہیں کہ پاکستان کی طاقتور انٹیلیجنس سروس افغان طالبان کی درپردہ مدد کرتی رہی ہے۔ حالانکہ پاکستان نے ہمیشہ امن کے لئے ہی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے اس خطے میں جاری کھیل کا خمیازہ ہمیشہ پاکستان کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔مگر اب وقت آگیا ہے کہ یہ معاملہ سنجیدگی کے ساتھ زیر غور لایا جائے کہ امریکہ کی جانب سے ہر بار پاکستان سے قربانیاں لے کر اسی کو کیوں پابندیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ ہم کب تک اس طرح امریکہ کی مدد کرنے کے باوجود مشکلات کے میں پھنستے رہیں گے۔باقی جو باتیں کی جاتی ہیں کہ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں انسانی حقوق کا احترام ہو، خواتین کو کام اور لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی جائے۔ یہ سب باتیں صرف اس لئے کی جا رہی ہیں تاکہ انسانی حقوق کے نام پر دوسرے ممالک کو بھی ساتھ ملایا جا سکے اور ان کو طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے روکا جا سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اس مرتبہ پھر اس خطے کواسی جہنم میں دھکیلنا چاہتا ہے جس میں اس نے 90 کی دہائی میں دھکیلا تھا۔ باقی اب پاکستان پر ہے کہ وہ ڈومور کے اس امریکی دباو کو کتنا برداشت کرتا ہے جو پاکستان مخالف بل کی صورت میں امریکی سینیٹرز کے ذریعے ہم پر ڈالنے کی کوشش کی گئی اور اب وہی دباو Wendy Shermanبھی پاکستان پر ڈالنے آ رہی ہیں۔ ہمارے ملک کے جو اندرونی معاملات ہیں اور پاکستان معاشی طور پر جتنا کمزور ہو چکا ہے تو ہمیں جو بھی فیصلہ کرنا ہو گا وہ بہت محتاط ہو کر کرنا ہوگا۔

Leave a reply