‘پاکستان کی ایٹمی طاقت بننے میں ڈاکٹر عبدالقدیر کی خدمات’ تحریر سید محمد مدنی

0
80

وہ شخصیت جسے ہم محسن پاکستان کہتے ہیں اس کا نام ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان

جی ہاں یہ وہ آدمی تھا جس نے ہالینڈ کی امریکی ڈالروں والی نوکری چھوڑی اور پاکستان میں کم پیسوں والی نوکری کی تاکہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا جا سکے جب ڈاکٹر صاحب پاکستان آنے لگے تو انھیں کچھ نقشے اور ایٹمی سینٹری فیوجز کی معلومات تصاویر درکار تھیں اس کو حاصل کر نے کے لئے ہالینڈ سے وہ معلومات اکٹھی کرنا بے حد ضروری تھا اس زمانے میں ہالینڈ جسے نیدرلینڈ بھی کہا جاتا ہے وہاں ایٹمی معلومات موجود تھیں اب باری تھی کہ ان کو حاصل کیسے کیا جائے اس کے لئے ڈاکٹر صاحب نے اپنی اہلیہ محترمہ کے زمے کام لگایا وہ وہیں کی شہریت رکھتی تھیں انھوں نے بغیر کسی انکار کے وہ سب معلومات حاصل کیں اور جب ہالینڈ سے پاکستان جانے کا وقت آیا تو ڈاکٹر صاحب نے اہلیہ سے پوچھا کیا تم میرے ساتھ چلو گی یا یہیں رہو گی ان کی اہلیہ نے کہا نہیں میں آپ کے ساتھ جاؤں گی اب مرحلہ آتا ہے کہ یہ معلومات رکھی کہاں جائیں اس کے لئے ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے وہ معلومات بجائے سوٹ کیس یا بیگ میں رکھنے کے خاص جگاہوں پر چھپائیں جہاں کوئی نا محرم چیکنگ نہیں کرسکتا تھا اس زمانے میں اتنی ٹیکنالوجی نہیں آئی تھی کہ اتنی گہرائی میں اسکیننگ ہوسکے اس کے بعد ان کی اہلیہ نے وہ معلومات رکھیں اور دونوں پاکستان روانہ ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جب تک جہاز پاکستانی سر زمین پر لینڈ نہیں کر گیا سارے راستے ٹینشن میں رہے کچھ معلومات یہ بھی آئیں تھیں کہ ہالینڈ کی حکومت کو علم ہو چکا تھا کہ کچھ معلومات یہاں سے حاصل کی گئیں ہیں لیکن جب تک دونوں پاکستان بخیریت پہنچ چکے تھے یہ ہے ان دونوں کا احسان ہمارے اوپر

اب مرحلہ آیا کہ پاکستان میں سینٹری فیوجز اور ایٹمی معاملے سے متعلق چیزیں کس طرح پاکستان امپورٹ کی جائیں کیونکہ یہ معاملہ اتنا آسان نہ تھا اس کے لئے اس وقت کے مشہور تاجر سیٹھ عابد کو ایپروچ کیا گیا جن کا تعلق بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیوں سے بزنس تھا
سیٹھ عابد سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان خود ملے اور یہ معاملہ پھر باقاعدہ ریاستی اور حکومتی ہو چکا تھا ڈاکٹر صاحب نے سیٹھ عابد سے کہا کہ مجھے کچھ مال چاہیے کیا آپ منگوا سکیں گے جس پر سیٹھ صاحب نے کہا کہ آپ حکم کریں پاکستان کے لئے جان بھی حاضر جس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مجھے فلاں فلاں چیز چاہیے اب یہ آپ کیسے لائیں گے منگوائیں گے مجھے پریشانی ہے اس پر سیٹھ صاحب نے کہا کہ آپ پریشان نا ہوں بس یہ حکم کریں کہ کیا چیز کس وقت اور کہاں چاہیے پہنچ جائے گی اور پھر کچھ مال اسکریپ کے زریعے کراچی امپورٹ ہؤا اور وہاں اس کو جان بوجھ کر اسکریپ میں ہی پڑا رہنے دیا گیا تاکہ اس وقت کی بین الاقوامی طاقتوں خاص کر امریکہ کو علم نا ہو اسی طرح آہستہ آہستہ یہ سب معاملات حل ہوتے چلے گئے ایٹمی سرنگیں تو کافی پہلے ہی کھودنا شروع کی چکی تھیں لیکن امریکہ ہمیشہ جاسوسی کرنے میں لگا رہتا تھا اور اسے شک بھی ہؤا تھا جس پر مختلف دور حکومت میں ایسے کمال کے اور گھما پھرا دینے والے بیانات آئے کہ امریکہ کو بہت دیر سے جا کے علم ہؤا کہ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار پر کام مکل کرلیا ہے بس اب تو صرف ٹیسٹ کرنے کی دیر ہے ایک دور میں امریکہ کو شک ہؤا لیکن پاکستان نے بڑی ہی خوبصورت لہجے میں یہ کہا کہ جناب ہمارے پاس ایٹمی طاقت کہاں ہے ہم تو غریب سے ملک کے لوگ ہیں لیکن جب ﷲ کومنظور ہوتا ہے تو سب کچھ ہو جاتا ہے اور پاکستان ایٹمی طاقت کی صلاحیت سے ہمکنار ہؤا

یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اگر اس پر لکھا جائے تو کتابوں کے اوراق ہاتھ اور قلم سب ختم ہو جائیں مگر اس سے متعلق باتیں ختم نا ہوں
ﷲ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت کرے آمین پاکستان آج ایٹمی طاقت ہے اور اس نے یہ ہتھیار کم سے کم ڈیٹرینس کے لئے بنا کررکھے ہیں ورنہ یقین کریں آج اگر پاکستان ایٹمی صلاحیت سے محروم ہوتا (ﷲ نا کرے)
تو صورتحال بلکل مختلف ہوتی جس کا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے

آخری اور اہم نوٹ
اس کالم میں کچھ ایسی معلومات بھی ہیں جو مجھے اپنے آباؤ اجداد سے ملی ہیں اگر کوئی اعتراض کرنا چاہے تو بلکل کرسکتا ہے یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جو میں نے سنا ہو وہ من و عن درست ہو

اسی کے ساتھ یہ کالم اب اپنے اختتام کو پہنچتا ہے

@M1Pak Twitter id

Leave a reply