مزید دیکھیں

مقبول

وزیراعلی پنجاب کی فلم انڈسٹری میں 2 ارب روپے کی گرانٹ تقسیم کرنے کی منظوری

لاہور: پنجاب حکومت نے فلم انڈسٹری کو پروموٹ کرنے...

شدید گرمی، کراچی میں شیڈول نیشنل گیمز ملتوی

شدید گرمی اور انٹر کے امتحانات کے باعث...

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ہاسٹل میں گولیاں چل گئیں،طالبہ قتل

اسلام آباد: انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ہاسٹل میں 22...

اظہار رائے کو پنپنے دیا ہوتا توپاکستان دو لخت ہوتا نہ ہمارے لیڈر سولی پر چڑھتے،جسٹس اطہرمن اللہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کورٹ رپورٹرز کی تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشکور ہوں منتظمین کا جنہوں نے سیمینار میں شرکت کا موقع دیا،یہ موضوع انتہائی اہم ہے،کورٹ رپورٹرز اور صحافیوں کیساتھ وکلاء تحریک میں رابطہ رہا،کورٹ رپورٹرز کو علم ہوتا ہے کونسی چیزیں کرنی ہیں یا نہیں کرنی،پروفیشنل اقدار ہر کورٹ رپورٹر کو ادراک ہوتا ہے،میں نے کورٹ رپورٹرز کے زریعے بہت ساری چیزیں سیکھی ہیں،

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بنیاد بھی اظہار رائے کے پہراہے میں اچھی نہیں رہی،قائد اعظم کی تقریر کو ریاست نے سینسر کیا،وہاں سے ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوا،بدقسمتی سے ہماری آدھی سے زیادہ تاریخ ڈکٹیٹر شپ سے گزری جہاں میڈیا کی آزادی نہیں ہوتی،آزادی اظہار رائے میں صحافیوں کا کلیدی کردار رہا ہے،صحافیوں نے آزادی اظہار رائے کیلئے کوڑے بھی کھائے،ایک ملزم کے خلاف کتنا ہی بڑا الزام کیوں نہ ہوئے، اسکی معصومیت کا عنصر موجود رہتا ہے،میں جج بنا تو پہلا کیس ایک ضمانت کا سنا,ملزم 16 سال کا لڑکا تھا ،الزام ایک بینر لگانے کا تھا، ٹرائل کورٹ نے ضمانت مسترد اس لیے کی تھی کہ سپریم کورٹ کے جج کا معاملہ تھا،کسی نے یہ پتا چلانے کی کوشش نہیں کہ وہ بینرز لگوائے کس نے تھے،بحیثیت جج ہم اپنی کوئی چیز چھپا نہیں سکتے،عدلیہ پر دو طرح کی تنقید ہوتی ہے،الزام لگایا جاتا ہے کہ دانستہ طور پر فیصلے ہو رہے ہیں،ایک وہ تنقید ہوتی ہے جسے میں پسند نہیں کر رہا اسے ریلیف کیوں ملا,وقت کے ساتھ سچائی سامنے آ جاتی ہے،توہین عدالت کے اصول برطانیہ میں جج کے تحفظ کیلئے نہیں بنے,کسی ناپسندیدہ شخص کو ریلیف ملنے پر ججز پر تنقید کی جاتی ہے، جج کو کبھی کسی تنقید سے گھبرانا نہیں چاہئے، تنقید ہر ایک کرے مگر پھر عدلیہ پر اعتماد بھی کرے,ایک خودمختار جج پر جتنی بھی تنقید ہو اس کو اثر نہیں لینا چاہیے، اگر کوئی جج تنقید کا اثر لیتا ہے تو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے،اظہار رائے کو دبانے کی کوشش نہیں کرنی چائیے، کورٹ رپورٹرز کے لیے ایک نیا چیلنج بھی ہے، رپورٹنگ کے ساتھ وی لاگ بھی کیا جاتا ہے، جوڈیشری کو خائف نہیں ہونا چائیے،تمام چیزوں کا حل آئین میں ہے، حل اظہار رائے کا احترام کرنا ہے،فیصلے غلط ہیں یا صحیح وہ سچائی کی صورت میں سامنے آئینگے، کسی جج کو اظہار رائے پر قدغن نہیں لگانی چاہیئے، سچ ہی آخر میں قائم ؤ دائم رہتاہے

جب کوئی سیاسی لیڈر کمزور ہوتا ہے اسے عدالتی سزا سے پہلے ہی سزا دی جا چکی ہوتی ہے،جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ کاکہنا تھا کہ مجھ پر الزامات لگتے رہے کہ وٹس ایپ پر کسی سے رابطے میں ہوں، کبھی کہا جاتا ہے کہ میں نے 2 پلاٹ لے لئے مگر مجھے الزامات سے فرق نہیں پڑتا، سوشل میڈیا کا اثر ججز پر نہیں ہونا چاہئے،اظہار رائے کو پنپنے دیا ہوتا تو نہ پاکستان دو لخت ہوتا نہ ہمارے لیڈر سولی پر چڑھتے، سچ سب کو پتہ تھا، سچ کو دباتے دباتے 75 سال میں ہم یہاں تک پہنچ گئے،1971 میں کورٹ رپورٹنگ اور میڈیا آزاد ہوتا تو پاکستان کبھی نا ٹوٹتا۔جب کوئی سیاسی لیڈر کمزور ہوتا ہے اسے عدالتی سزا سے پہلے ہی سزا دی جا چکی ہوتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو ٹرائل زمانے کے اخبارات دیکھ لیں جرم ثابت ہونے تک بے گناہی کا تصور موجود نہیں تھا،

ٹیکنالوجی کے دور میں ریاستیں اظہار رائے کو کنٹرول نہیں کر سکتیں،جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ کا مزید کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کی مخالفت بہت قوتیں تھیں ، سپریم کورٹ سے توقع کی جارہی تھی کہ اٹھارویں ترمیم کالعدم قرار دے گی، مجھ سے پوچھنے پر میں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اٹھارویں ترمیم کالعدم قرار نہیں دینی چاہئیے،میں نے کہا میری رائے ہے کہ سپریم کورٹ کو کسی آئینی ترمیم کو نہیں چھیڑنا چاہیے، میں نے کہا تھا کہ اٹھارویں ترمیم اگر کالعدم ہو گئی تو استعفیٰ دے دوں گا، اگلے روز سرخی لگی کہ اطہر امن اللہ نے عدالت کو دھمکی دی،اظہار رائے سر عام ہونی چاہئیے،مجھے اعتزاز احسن نے کہا کہ اس خبر کا کچھ کرتے ہیں تو میں نے کہا نہیں میں نے یہی کہا تھا، اظہار رائے کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے، بحثیت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ چار سالوں میں کھبی عدالتی رپورٹنگ پر اثر انداز نہ ہوا، ایک غریب مالی نے پوچھا کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ میں نے مالی سے پوچھا کہ تمہارے ارد گرد سچائی ہے؟ مالی نے کہا آج کل سچ کا دور نہیں ہے،سچ سب کو معلوم ہے، میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ کسی کورٹ رپورٹر کو بتاوں کے اس کے اصول کیا ہیں، اگر 1971 میں میڈیا آزاد ہوتا تو پاکستان دولخت نا ہوتا، ہر ایک کو اپنے آپ سے سوال پوچھنا چاہئے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں، کیا ہم آج اصول پر کھڑے ہیں؟ ہم آج بھی اپنی مرضی کے فیصلے اور گفتگو چاہتے ہیں، ٹیکنالوجی کے دور میں ریاستیں اظہار رائے کو کنٹرول نہیں کر سکتیں،ججز اس صورتحال میں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن اس کا حل آئین اظہار رائے کی آزادی دے کر دے چکا،

جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ہم اچھے ہیں یا برے یہ ہمارے فیصلے طے کرتے ہیں،کسی جج کو کسی کورٹ رپورٹ پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اسے بتائے کیا رپورٹ کرنا ہے، جھوٹ جتنا بھی بولا جائے آخر سچ کا ہی بول بالا ہوتا ہے،
جب کوئی ایدھی امین کی طرح اظہار رائے پر پابندی لگاتا ہے تو معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے،

شہداء فورم کا فوجی عدالتوں کی بحالی کا مطالبہ

سپریم کورٹ، فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار

سپریم کورٹ،فوجی عدالتوں سے متعلق درخواستیں، فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد

جناح ہاؤس لاہور میں ہونیوالے شرپسندوں کے حملے کے بارے میں اہم انکشافات

سیاسی مفادات کے لئے ملک کونقصان نہیں پہنچانا چاہئے

ممتاز حیدر
ممتاز حیدرhttp://www.baaghitv.com
ممتاز حیدر اعوان ،2007 سے مختلف میڈیا اداروں سے وابستہ رہے ہیں، پرنٹ میڈیا میں رپورٹنگ سے لے کر نیوز ڈیسک، ایڈیٹوریل،میگزین سیکشن میں کام کر چکے ہیں، آجکل باغی ٹی وی کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں Follow @MumtaazAwan