پاکستان کا عدالتی نظام، نظام عدل یا کچھ اور تحریر: صالح عبداللہ جتوئی

پاکستان کا عدالتی نظام، نظام عدل یا کچھ اور
صالح عبداللہ جتوئی

کسی بھی ریاست کے بنیادی ستونوں میں سے اہم ترین ستون انصاف کا قیام ہے اور اسلام بھی اسی بنیادوں پہ پوری دنیا میں پھیلا جس کو بہترین انداز میں اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں بھی بیان فرمایا کہ کسی گورے کو کالے پر یا کسی کالے کو گورے پر، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی برتری نہیں لیکن اگر اس میں تقویٰ ہے تو اللہ کے ہاں اس کا اعلیٰ مقام ہے لیکن غرور و تکبر اور اکڑ پھر بھی نہیں دکھاۓ گا۔
اسی طرح ایک فاطمہ نامی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کی جاتی ہے جس نے چور کی ہوتی ہے تو اس کے لیے بہت سفارشیں آتی ہیں کہ اس کا تعلق اچھے خاندان سے ہے ان کو معاف کر دیا جاۓ اور اس کا ہاتھ نہ کاٹا جاۓ لیکن اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا اور فرمایا زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ اس طرح کرتے تھے کہ امیر کو چھوڑ دیتے اور غریب کو سزا دیا کرتے تھے۔
دراصل کسی بھی مثالی معاشرے کے لیے اس غیر منصفانہ عدل و انصاف کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا اور قانون کی نظر میں سب کو برابری کے ذمرے میں لانا ہو گا نہیں تو اس سے ہماری ساری نسلیں تباہ ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ جہاں پہ عدل نہیں ہو گا وہاں پہ چوری، حق تلفی، قتل و غارت، قانون شکنی اور ظلم و بربریت کا بازار ہی سرگرم ہو گا۔
حالانکہ انصاف کے قیام کے لیے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے عظیم حکمران نے بھی اپنے آپ کو پیش کر دیا اور آپ سے جو کوئی سوال کرتا آپ نے کبھی اس کا برا نہیں منایا اور نہ ہی ان سے بدلہ لیا حالانکہ آپ خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے تو کسی نے سوال کیا کہ آپ نے جو کپڑا سب میں تقسیم کیا تھا اس سے تو پورا لباس نہیں بن رہا لیکن آپ کا لباس کس طرح بن کیا تو قربان جاؤں اس عظیم پیغمبر کے عظیم صحابی اور 2 لاکھ مربع میل پہ حکمرانی کرنے والے حکمران پہ جس نے اس آدمی پہ غضب ناک ہونے کی بجاۓ اپنے بیٹے عبداللہ سے فرمایا کہ اس سوال کا جواب دو تو انہوں نے کہا کہ میرے والد کے پاس اچھا لباس نہیں تھا اور اس کپڑے سے نہ میرا لباس بن رہا تھا اور نہ ہی ان کا بن رہا تھا تو میں نے اپنے حصہ کا کپڑا بھی ان کو دے دیا اور ان کا لباس بن گیا جس سے سائل مطمئن ہو گیا اسی طرح اور بھی کئی واقعات ایسے ہیں جہاں پہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ نے بھی اپنے آپ کو انصاف کے لیے پیش کیا اور سرخرو بھی ہوۓ اور یہی وجوہات ہیں جس کی بدولت اسلام نے حکمرانی کی اور آپ کے انصاف کا بول پوری دنیا میں بالا ہو گیا۔
جب ہم اپنے ملک کو اسلامی ریاست بنانے کا نعرہ لگائیں گے تو ہمیں بہت سی قربانیاں پیش کرنی ہوں گی اور اگر کوئی قانون شکنی کرے گا تو اس کو سزا ضرور ملے گی چاہے وہ ہمارا بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو لیکن اس ملک میں کوئی بھی امیر کو چھونے کی بھی ہمت نہیں کر سکتا اور غریب سڑک پہ ریڑھی کھڑی کرنے کے لیے بھی کورٹ کچہریوں کے دھکے کھاتا خالق حقیقی سے جا ملتا ہے اور کوئی ضمانت لینے کے لیے چھٹی والے دن بھی عدالتیں کھلوا لیتا ہے اور 50 کے اسٹام پہ بغیر کسی بیماری کے جعلی رپورٹس بنوا کے بیرون ملک دوڑ جاتا ہے اور ہم یہاں چیختے رہتے ہیں۔
اس ملک کا عدالتی نظام کچھ اس طرح ہے کہ یہاں سالہا سال کیس چلتے رہتے ہیں اور جب اس کا فیصلہ ملزم کے حق میں آتا ہے تب اسے فوت ہوۓ بھی 10 سال ہو چکے ہوتے ہیں لیکن وہی کیس کسی امیر کا ہو تو اس کے لیے سیر و تفریح کا باعث بن جاتا ہے اور ثبوت ہونے کے باوجود ان کو باعزت بری کر دیا جاتا ہے اور اگر عوام کا تھوڑا سا ڈر بھی ہو تو کیس کو طول دے دیا جاتا ہے اور کبھی ان کو باہر بھیج دیا جاتا ہے تو کبھی ان کی سزا دی جاتی ہے تو اس سزا کے خلاف اپیل پہ فیصلہ کرتے کرتے سالہا سال لگا دیتے ہیں اور پھر اس کے عدالت میں پیش ہونے کے لیے استثنیٰ والی درخواست دائر کر دی جاتی ہے اس طرح پہلے یہ کیس چلتا رہتا ہے کہ اس نے پیش ہونا ہے یا نہیں اور پھر ضمانت پہ کیس چلتا اور فرد جرم والا ڈرامہ رچایا جاتا اور پھر آخر میں مک مکا کر کے اس کی سزا کو ہی کالعدم قرار دے دیا جاتا اور وہ وکٹری کا نشان بناتے ہوۓ عدالت سے سرخرو ہو کے نکلتا ہے جو کہ عدالتوں کے منہ پہ زور دار طمانچہ ہے اب ہم دیکھ رہے ہیں کئی کرپٹ سیاستدانوں کو پکڑ کے جیل میں ڈالا جاتا لیکن عدالتیں انہیں بیرون ملک عیش کروا رہی ہوتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ اقتدار میں تھے تو ان معزز ججوں کو بھی عیش ہی کرواتے تھے جو کہ ثبوت ہونے کے باوجود انہیں اندھا کرنے کے لیے کافی ہے.
کوئٹہ میں ایک غریب ٹریفک سارجنٹ جو کہ اپنی ڈیوٹی پہ مامور تھا اسے آج سے دو سال قبل ایک بااثر ایم پی اے مجید اچکزئی نے نشے کی حالت میں کچل کے شہید کر دیا اور اس کی ویڈیو بھی وائرل ہو گی جو کہ اس کے ظلم کا واضح ثبوت ہے لیکن تف ہے ایسی ناانصاف عدل پہ مبنی امیروں کی عدالت پہ جنہوں نے شواہد ناکافی ہونے کی صورت میں اسے باعزت بری کر دیا ہے بیچارے اہلخانہ کو مایوسیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیا اب میرا اس ملک کے حکمرانوں اور عدالتوں سے سوال ہے کہ اب اگر ان کے اہلخانہ میں سے کوئی اس ایم پی اے سے بدلہ لے تو ان کو ہی غلط کہا جاۓ گا اور قانون ہاتھ میں لینے کی پاداش میں فوراً سزاۓ موت ہو جاۓ گی۔
میرا سوال ہے کہ کون سا قانون ہے یہ؟
کیا ویڈیو ثبوت بھی کافی نہیں ہے؟
اوہ ہاں یہ تو وہ عدالتیں ہیں جو بااثر لوگوں سے شراب برآمد کر کے بھی اسے شہد بنا دیتی ہیں یہ تو پھر بھی ویڈیو والا معاملہ ہے یہاں امیر کے لیے موجیں اور غریبوں کے لیے پھانسی کے گھاٹ ہیں۔
اگر یہی معاملات رہے تو یہاں کوئی محفوظ نہیں رہے گا اور ہم نے اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی تو ایک نہ ایک دن ہم بھی اس ظلم کا شکار ہو جائیں گے خدارا جاگ جائیں اور بے ضمیر ججوں اور حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑیں تاکہ کوئی اور اس ظلم کا شکار نہ ہو پاۓ۔
میری حکومت وقت سے بھی گزارش ہے کہ اسلامی ریاست کی باتیں تب ہی اچھی لگیں گی جب یہاں انصاف کا بول بالا ہو گا کیونکہ اسلامی ریاست میں تو ایک کتے کے بھوکے مر جانے کا سوال بھی حکومت وقت سے ہو گا اور اگر یہی اندھا قانون رہا تو یہاں پہ کبھی امن نہیں آۓ گا کیونکہ کسی کو بھی اندھی عدالتوں پہ بھروسہ نہیں رہا
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
اللہ سے دعا ہے اللہ ملک پاکستان میں عدل و انصاف کا بول بالا فرمائیں تاکہ یہ ملک امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکے اور یہ تبھی ممکن ہے جب امیر اور غریب کے لیے ایک ہی قانون ہو گا اور ایک ہی طرح کی سزائیں ہوں گی۔
اللہ اس ملک کا حامی و ناصر ہو آمین یا رب العالمین۔
پاکستان پائندہ باد

Comments are closed.