کسی بھی ملک، ریاست کے بنیادی ستونوں میں اہم ترین ستون انصاف کا ہے۔ اسلام بھی دنیا میں عدل و انصاف کی بنیاد پر پوری دنیا میں پھیلا جسے خود پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجہ الوداع کے موقع پر فرمایا کسی کالے کو گورے پر کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ اللہ پاک کے ہاں فوقیت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا اہم واقع بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے .”ایک فاطمہ نامی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کی جاتی ہے جس نے چور کی ہوتی ہے تو اس کے لیے بہت سفارشیں آتی ہیں کہ اس کا تعلق اچھے خاندان سے ہے ان کو معاف کر دیا جاۓ اور اس کا ہاتھ نہ کاٹا جاۓ لیکن اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا اور فرمایا زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ اس طرح کرتے تھے کہ امیر کو چھوڑ دیتے اور غریب کو سزا دیا کرتے تھے”
اس وقت پاکستان میں عدالتی اصلاحات نا گزیر ہو چکی ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں امیر اور غریب کے لئے الگ الگ قانون ہے۔ اول تو غریب اور کمزور کو انصاف ملتا ہی نہیں اور اگر مل جاۓ تو اس میں اتنی تاخیر ہوتی ہے کہ مظلوم عدالتوں کی خاک چھانتے دنیا ہی چھوڑ جاتا ہے. غریب بیچارہ بے قصور بھی ہو تو کئی کئی سالوں تک عدالتوں کے دھکے کھاتا ہے اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور طاقتور اربوں روپے لوٹنے کے باوجود دے دلا کے چند ہی دنوں میں بری ہو جاتا ہے۔
ایک طرف غریب روٹی یا چپل چوری کرتے پکڑا جاۓ تو ساری عمر جیل میں چکی پیستا ھے اور دوسری طرف لیاری گینگ وار کے عزیر بلوچ اور دن دھاڑے ٹریفک وارڈن کو کچلنے والے رکن بلوچستان اسمبلی مجید اچکزئی جیسے لوگ انہی عدالتوں سے نا کافی ثبوتوں کی بنیاد پر رہا ہو جاتے ہیں..
کوئی بھی معاشرہ انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا کیوں کے کفر کا نظام تو چل سکتا ہے پر ظلم کا نہیں۔ یاد رکھیں جہاں انصاف نہ ہو وہاں کبھی امن نہیں ہوتا اور غربت خیرات سے نہیں انصاف سے ختم ہوتی ہے۔اللّه پاک بھی انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ اللّه کی عدالت میں صرف انصاف ہوتا ہے اور ظالم پر رحم کرنا مظلوم پر ظلم کرنے جیسا ہے۔ قدرت کا یہ قانون ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے یہی مکافات عمل ہے۔
آزاد اور خود مختار عدالتیں ہی حق اور سچ پر مبنی فیصلہ دے سکتی ہیں۔ آج پاکستانی عدالتوں میں قریب 21 لاکھ سے زائد مقدمات انصاف کے منتظر ہیں- اس پرانے اور فرسودہ نظام کو اب بدلنے کا وقت ہے۔ عدالتی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ موجودہ حکومت کے چند وعدوں میں سے ایک وعدہ عدالتی نظام میں اصلاحات اور تبدیلیاں تھی جو اب تک پورا نہیں ہو سکا۔
حکومت کو تمام متعلقہ اداروں اور حکام کے ساتھ مل کر عدالتوں میں پڑے تمام زیر التوا مقدمات کے جلد از جلد فیصلوں کے حوالے سے اقدامات اٹھانے چاہئے تا کہ سب لوگوں کو فوری اور بروقت انصاف مل سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ جھوٹے مقدمات اور جھوٹی شہادتوں کو روکا جانا چاہئے اور مقدمات کے غیر ضروری التواء کے ذمہ دار ججز اور وکلاء کے خلاف عملی کروائی ہونی چاہئے۔ پارلیمنٹ کو عدالتی اصلاحات پر توجہ دینی چاہئیے۔
اللّه تبارک و تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
{إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o} [المائدہ:۴۲]
” بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ”
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
(الحجرات 9)
"اللہ قسط سے انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.”
(حدیث قدسی ، مسلم : 2577 )
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
” مظلوم کی بد دعا سے بچو ، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا _” (بخاری : 1469 ، مسلم : 19)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی حالت میں تشریف لاتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں:
”اے لوگو! اگر میں نے کسی کی پیٹھ پر کبھی درّہ مارا ہے تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے، وہ مجھ سے بدلہ لے سکتا ہے۔ اگر میں نے کسی کو برابھلا کہا تو یہ میری آبرو حاضر ہے، وہ اس سے انتقام لے سکتا ہے۔ اگر میں نے کسی کا مال چھینا ہے تو میرا مال حاضر ہے، وہ اس سے اپنا حق لے سکتا ہے اور تم میں سے کوئی یہ اندیشہ نہ کرے کہ اگر کسی نے انتقام لیا تو میں اس سے ناراض ہوں گا، یہ بات میری شان کے لائق نہیں۔”