دنیا میں کسی بھی معاشرے میں خواندگی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ خواندہ لوگ معاشرے کی ترقی و خوشحالی کے ضامن ہوتے ہیں۔ پڑھے لکھے افراد ہی معاشرے میں بہترین انتظامات اور مسائل کا حل پیش کرسکتے ہیں۔ نا خواندہ معاشرہ کسی جنگل یا حیوانوں کے مسکن کی پرح ہوتا ہے جہاں نہ کوئی قانون ہوتا ہے نہ ہی اس کی عملداری، بلکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا سسٹم ہوتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح وطن عزیز پاکستان میں بھی تعلیم کی ترقی کے بلند و بالا نعرے لگائے جاتے ہیں۔ طلباء و طالبات کو بہترین سہولیات فراہم کرنے کے راگ الاپے جاتے ہیں۔ سکالرشپس اور وظائف کے اجراء کے لیے کروڑوں کے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔ مگر آخر میں جب تفتیش ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وفاقی سطح سے یونین کونسل سطح تک کے آفیسران کی ملی بھگت سے وہ فنڈز ان کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوچکے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیمی نظام انتہائی دگرگوں حالت سے دوچار ہے۔ صاحب استطاعت طبقہ سرکاری نظام تعلیم کی بجائے پرائیویٹ نظام تعلیم کی طرف جانا زیادہ پسند کرتا ہے۔ مگر جو غرباء یا اوسط طبقہ کے لوگ ہیں وہ اپنے بچوں کو پڑھانے کی بجائے پچپن سے کام کاج پر لگا دیتے ہیں تاکہ وہ ان کا سہارا بن سکیں۔ معصوم بچے جب لاشعوری کی حالت میں کسی کام پر جاتے ہیں تو ان کا معاشی استحصال شروع ہوجاتا ہے۔ انتہائی کم اجرت پر گھنٹوں کام لیا جاتاہے۔ ایسے حالات یا تو لاقانونیت کی بنیاد بنتے ہیں یا جرائم کی۔
پاکستان میں پرائیویٹ سکولز مافیاز بھی سرکاری نظام تعلیم کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ وہ غیر معیاری تعلیم دے کر بچوں کے مستقبل کو روشن کرنے کی بجائے تاریک کردیتے ہیں۔ زیادہ فیسوں کے حصول کے لیے بچوں کو بغیر کچھ پڑھائے اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا جاتا ہے تاکہ والدین کی خوشنودی حاصل کی جاسکے۔ مزید پرائیویٹ سیکٹر کی سرکاری عہدیداروں کے ساتھ ملی بھگت سے سرکاری سکولوں کو یا تو سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں یا پھر سرے سے سکول کو عملہ ہی فراہم نہیں کیا جاتا۔
اگر دوسری جانب سرکاری سطح پر دیکھا جائے تو نظام تعلیم کی بہتری کی طرف کوئی عملی قدم اٹھتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پاکستان کو 73 سالوں میں یکساں نظام تعلیم نہیں مل سکا۔ اسی طرح یکساں نصاب بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ دیہی علاقوں میں سکولز بند پڑے ہیں یا عملہ ہی موجود نہیں ہے۔
ہائیر ایجوکیشن کی طرف دیکھا جائے تو وہاں بھی حالات ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں مؤثر طریقہ تعلیم نہ ہونے سے اکثر طلباء بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں اور غلط دھندوں میں پڑنے سے اپنی زندگیاں برباد کر ںیٹھتے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کے بعد طلباء کو واضح رہنمائی کا بھی کوئی سسٹم موجود نہیں کہ کس طالب علم کے لیے کونسی فیلڈ بہتر ہے۔ اس طرح ٹیلنٹ بھی سامنے نہیں آسکتا۔ طلباء کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ انہوں تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیا کرنا ہے۔ مؤثر رہنمائی نہ ہونے سے طلباء تعلیم مکمل کرنے کے بعد معاشی نظام پر بوجھ بنتے ہیں۔ نوکریوں کی تلاش میں پھرتے طلباء غربت سے تنگ آکر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بھی کسی قسم کی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی کہ طلباء اور تعلیمی نظام کے اندر کن اصلاحات کی ضرورت ہے۔
لہٰذا ہمارا تعلیم نظام دنیا کے پسماندہ ترین نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔ اس سے بڑی تذلیل اور فکر کی بات کیا ہوگی کہ پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کی ٹاپ 500 یونیورسٹیز میں شامل نہیں ہے۔ اعلیٰ اور مؤثر ذرائع نہ ہونے کے سبب پاکستانی طلباء عالمی سطح پر اپنی خدمات پیش کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستانی حکومت کو تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ تاکہ پاکستانی طلباء بھی دنیا کے شانہ بشانہ کھڑے ہو سکیں۔
تحریر: محمد عمران خان
Twitter Handle: @ImranBloch786