پاکستان کا نظام تعلیم توجہ چاہتا ہے
علی حسن اصغر

ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں پر ذہنی دباؤ بہت زیادہ ڈالا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر استعمال نہیں کر پاتے ۔ کیوں کہ جب تک وہ تعلیم حاصل کرکے ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کے قابل ہوتے ہیں ، وہ اپنا اعتماد اور حوصلہ کھو چکے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر اوقات وہ بذاتِ خودملک پر ایک بوجھ بن جاتے ہیں۔۔۔
ہمارے تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ ہمارے امتحانی نظام میں بھی بہت سی خامیاں موجود ہیں جن کا اثر تعلیمی نظام پر بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اکثر اوقات امتحانی پر چہ جات وقت سے پہلے آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً آج سے تین سال قبل 2017ء میں ،جب یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز(UHS) کے پرچےMCAT (جس کی بنیاد پر طلبہ کو میڈیکل کالجوں ، یونیورسٹیوں میں داخلہ دیتے ہیں) کی جانچ پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ گزشتہ دس سالوں سے وہ پرچہ لیک ہوتا رہا ہے ۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ ملک کیلئے جس قدر مہلک اور تباہ کن بدعنوانی ہے وہ کسی اور شعبے میں نہیں بلکہ تعلیم کے شعبے میں ہے ۔کیونکہ طلبہ اپنے اساتذہ سے سیکھتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو جب اساتذہ بدعنوانی کرتے ہیں تو لاشعوری طور پر ان کے ذہن میں میں یہ بات محفوظ ہو جاتی ہے کہ بدعنوانی کوئی بڑا جرم نہیں اور جب یہی طلباء تعلیمی اداروں سے نکل کر مختلف شعبوں میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں تو انہیں بدعنوانی کرنے اور رشوت لینے میں قباحت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ انہوں نے اپنے اساتذہ کو بدعنوانی کرتے دیکھا ہوتا ہے ۔
ایک بات جس کا میں خصوصی طور پر ذکر کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ بدقسمتی سے ہمارے چند تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں کہ جہاں اپنی محنت سے امتحان پاس کرنے کی ترغیب دینے کے بجائے نقل کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ وہ طالب علم جو پڑھائی میں ذرا کمزور ہو ، اسے پڑھنے کی بجائے نقل کرنے کے طریقے بتائے اور سمجھائے جاتے ہیں۔۔ اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ امتحانی عملہ بھی رشوت میں ملوث ہوتا ہے جس کی وجہ سے ذہین طلبہ کی حق تلفی ہوتی ہے اور طلبہ میں نقل کرنے کا رجحان بڑھتا ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑا اور اہم نقص جو ہمارے ملک کی بنیادوں کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے وہ یہ کہ اکثر تعلیمی اداروں میں سمجھانے کی بجاۓ رٹہ بازی کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے طلباء امتحانات میں تو اچھے درجوں کے ساتھ پاس ہوتے ہیں ہیں لیکن جب میدانِ عمل میں قدم رکھتے ہیں تو بری طرح ناکام ہوجاتے ہیں۔مثلاً گزشتہ برس 2019ء کے میٹرک کے بورڈ ٹاپرز کا جب نصاب سے متعلق conceptual امتحان لیا گیا تو وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے۔ جس سے ہم اپنے تعلیمی نظام کی بخوبی سمجھ آ جاتی ہے۔
یہاں میں نے پاکستان کے تعلیمی نظام کے کچھ نقائص پر روشنی ڈالی ہے۔ یقیناً اور مسائل بھی ہوں گے لیکن اگر ہم مسائل کی کثرت سے گھبرا کر قدم نہیں اٹھائیں گے تو مزید مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ کسی بھی راستے پر چلیں،راہ میں پتھر ضرور آئیں گے۔ یہ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ ان سے اپنی راہ میں دیوار کھڑی کرتے ہیں یا اپنے لیے پُل تعمیر کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ، قدم بہ قدم ہم اگر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں تو وہ وقت دور نہیں کہ جب ہم اپنی محنت کا ثمر حاصل کریں گے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے مسائل سے گھبرانے کی اور ان سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ عطا فرمائے۔
( آمین)
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

Shares: