اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کا حصول اورمسلمانوں کے لئے الگ مملکیت کا قیام اللہ تعالی کی عظیم الشان نعمت تھی جو اس خطے کے مسلمانوں پرنازل ہوئی۔ یہ اہلِ پاکستان کا فرض تھا کہ وہ اس نعمیتںِ عظمی کو ہرقدم پریاد رکھتے اوراسے فراموش نہ ہونے دیتے۔ اس سلسلے میں چند گزارشات پیشںِ خدمت ہیں.

1. جس طرح پاکستان کا قیام مسلمانوں پراللہ کا انعام تھا اس طرح اس کا عظیم اشان کرم یہ تھا کہاس مملکیت کے قیام کے لئے 27 رمضان اور جمعہ کے دن کا انتخاب کیا گیا۔ اس دن کا انتخاب کسی انسان کی سوچ کا نتیجہ نہیں تھا کیونکہ اس دن کا یقین تنہا مسلمانوں کے اختیار میں نہیں تھا۔ بلکہ اس فیصلے میں انگریز، ہندواورسکھ بھی شامل تھے۔ ظاہرہے وہ اس نقطہ نظرسے اس دن کا انتخاب نہیں کرسکتے تھے۔ کہ یہ مسلمانوں کے لئے ہرلحاظ سے خیروبرکت کا دن ہے۔ ظاہرمیں نگاہیں اس بات کو مخص اتفاق سمجھتی ہیں کہ جو دن اِن اقوام کے اتفاق سے قیامِ پاکستان کا دن قرارپایا وہ جمعہ 27 رمضان کا دن تھا۔ لیکن جس شخص کا ایمان، قدرت کاملہ اورحکمت بالغہ پرہواس کے نزدیک اس کائنات کا کوئی واقعہ مخص بحث واتفاق کا نتیجہ نہیں ہوتا ان میں سے بعض حکمتوں کا علم انسان کو ہو جاتا ہے اوربہت سی حکمتیں اس کے پروازِ تخیل سے ماورا ہوتی ہیں اوروہ اپنی محدود فکر کے نتیجے میں ہی ان واقعات کو بحث واتفاق کا کرشما قراردیتے ہیں۔ لہذا قیامِ پاکستان کے مہینے، اس مہینے کے آخری عشرے، اور آخری عرشے میں 27 رمضان اوراس میں بھی جمعہ کے دن کا انتخاب نہ تو انسانی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا اور نہ بحث و اتفاق کا۔ بلکہ یقینا یہ یقین منجانب اللہ تھا۔

اس خطے کے مسلمانوں پراللہ تعالی کے بے پناہ کرم کا نتیجہ تھا کہ ہمیں پاکستان جیسی عظیم نعمت عطا فرمانے کے لئے اس مبارک دن کا انتخاب کیا گیا جو اپنی رحمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے سال کا افضل ترین دن تھا۔ یہ تو اللہ تعالی کی عطا تھی جو ہماری کسی کوشش اور طلب کے بغیر مخص اس کے فضل وکرم سے حاصل ہوئی۔ لیکن اس عطا کے مقابلے میں اپنی ناشکری اورناقدری ملاحظہ فرمائیے کہ اس نعمت کا اتنا ادراک و احساس کرنے کی توفیق بھی نہ ہمیں ہوئی؟ کہ ہم 27 رمضان کو پورا پاکستان اور اپنا یومِ استقلال تسلیم کر لیتے۔ چنانچہ جب یومِ آزادی کے لئے دن کی یقینی کا سوال آیا تو ہم نے 27 رمضان کی بجائے 14 اگست کو اپنا یومِ آزادی قرار دے دیا۔
مختصر یہ کہ اللہ تعالی کی اس غیبی تاہیک کی اس سے بڑھ کر ماقدری، احسان فراموشی اورکوتاہی کیا ہو گی؟ کہ سال کے جس افضل ترین دن کو اللہ تعالی نے ہمارے لئے یومِ پاکستان قرار دیا تھا ہم نے اس کو اپنا یوم آزادی تسیلم کرنے سے انکار کر دیا اور اس کو نظر انداز کر کے اپنی محبت اور عقیدت کا مرکز 14 اگست کو بنا لیا۔ میں سمجھتا ہوں یہ ہماری احسان فراموشی کا پہلا امتحان تھا۔ جس میں ہم "اللہ معاف فرمائے” بری طرح ناکام ہوئے۔ حکومت اس سنگین غلطی کی تلافی کرے اور ہم سے ماضی میں 27 رمضان کی ناقدری کا جو جرم سرزد ہوا اس سے اجتماعی توبہ کر کے آنئدہ کے لئے 14 اگست کی بجائے 27 رمضان کو یوِم استقلال ٹھہرائے۔

2. ہمارا یومِ آزادی، اس پر منایا جانے والا جشن اور اس موقع پر منعقد ہونے والی تقاریب ان دوسری اقوام کے جشن آزادی سے مختلف اور ممتاز ہونی چاہئے جن کے نزدیک آزادی کی مسرت جیت رسمی کھیل تماشوں سے عبارت ہے۔ اللہ نے اس مملکیت کے ذریعے ہمیں بیک وقت انگریزی استعار اور ہندو سامراج دونوں سے نجات عطا فرمائی اور اپنی تعمیر کرنے کا خود موقع دیا۔ ہمارا یومِ آزادی درحقیقت یومِ شکر ہونا چاہئے جس میں صرف ہماری زبان نہیں بلکہ ہماری ایک ایک نقل و حرکت شکر گزاری کی آئینہ دار ہو۔

پاکستان کا یوم استقلال ہر سال ہم سے یہ سوال بھی کرتا ہے کہ جس ملک کے قیام کے لئے ہزاروں مسلمانوں نے اپنے جان و مال اپنے جذبات اور اپنی عزت وآبرو کی جتنی قربانیاں دی تھیں جس کی بنیاد میں نا جانے کتنے مسلمانوں کا خون شامل تھا اس کے قیام کے لئے ہم نے کتنی جانیں رخصت کی ہیں؟ جب تک ہم اس سوال کے جواب میں اپنے پروردگار کے سامنے سرخرو ہونے کے اسباب پیدا نہ کر لیں اس وقت تک یوم آزادی کی یہ تقریبات مخص ایک رسمی کاروائی ہی رہیں گی اور قیام پاکستان کے اصل مقصد کے پیشِ نظر ان کی حیثیت ہماری بے عملی پر ایک بھرپور طنز سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتی۔

@merayTweets

Shares: