پاکستان میں ادویات کا بڑھتا ہوا بحران اور وزیراعظم کا نوٹس

0
33

پاکستان میں ضروری اور جان بچانے والی ادویات کی قلت کا بحران مزید شدت اختیار کرنے کا خدشہ ہے ، ملک بھر میں اس وقت 70 سے زائد ضروری اور جان بچانے والی ادویات مارکیٹ سے غائب ہیں۔

سماء ٹی وی کے مطابق: مقامی ادویہ ساز کمپنیوں نے عالمی منڈی میں خام مال کی قیمتوں میں اضافے اور زیادہ پیداواری لاگت کی وجہ سے اس کی درآمد روک دی ہے جس کی وجہ سے بحران مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔
ادویہ ساز کمپنیوں نے 200 مالیکیولز کے خام مال کی درآمد روک دی ہے جن کی عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور ان کی پیداواری لاگت کمپنیوں کی استطاعت سے باہر ہے۔

ادویہ ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومتی سطح پر ٹیکسز میں چھوٹ نہ دی گئی اور ادویات میں قیمتوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو ان ادویات کی تیاری ناممکن ہوجائے گی۔
یہ تیسرا ہفتہ ہے کہ خام مال کے لیے کوئی نیا آرڈر نہیں دیا گیا ہے۔ لہٰذا موجودہ پیداوار کچھ دستیاب اسٹاک کے ساتھ جاری ہے لیکن یہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گی اور جلد ہی یہ رک جائے گی جس سے ادویات کی قلت کا بحران مزید شدت اختیار کرجائے گا۔

وزیراعظم شہباز شریف ادویات کی قلت کے بحران کا ایک ماہ بعد نوٹس لیا ہے اور ملک میں 60 ضروری ادویات کی عدم دستیابی کا جائزہ لیتے ہوئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کو ادویات کی دستیابی سے متعلق جامع رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اس سے پہلے کہ وفاقی حکومت کوئی قدم اٹھاتی، مقامی کمپنیوں نے کئی دوائیوں کی پیداوار روکنے کا فیصلے کیا جس سے موجود بحران مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔

ملک کے سرکردہ سرکاری اور نجی شعبے کے اسپتالوں اور صحت کے ماہرین کے ساتھ مل کر ان ادویات کی فہرست مرتب کی ہے جو مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔
مارکیٹ سے غائب ادویات کی فہرست مرتب کرنے والی ٹیم کے ایک رکن اور سینئر فارماسسٹ نے بتایا کہ جولائی میں جو فہرست بنائی گئی تھی اس میں 40 مختلف ادویات کے نام تھے جن میں گولیاں، شربت، انجیکشن اور مرہم یا قطرے شامل تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اب 74 کے قریب دوائیں ایسی ہیں جو دستیاب نہیں ہیں۔ جن میں دماغی و اعصابی بیماریوں کی ادویات بھی شامل ہیں حتیٰ کہ ان میں ایسی دوائیں بھی ہیں جنہیں خودکشی سے بچاؤ کی ادویات کہا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر لیتھیم کاربونیٹ کے تمام برانڈز مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں جو کہ کئی نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے موثر ترین دوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان ضروری ادویات میں بچوں میں توجہ کی کمی ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر کے علاج کے لیے میتھائلفینیڈیٹ اور بچوں اور بڑوں میں مرگی کے لیے کلونازپم کے قطرے اور گولیاں شامل ہیں، جو پچھلے کئی ہفتوں سے مارکیٹ میں دستیاب نہیں تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ٹی بی (تپ دق)، مرگی، پارکنسن، امراض قلب اور دیگر بیماریوں کے مریضوں کے لیے ادویات بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔

فارما انڈسٹری کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مقامی فارما کمپنیوں کا اتفاقی فیصلہ نہیں تھا لیکن حالات نے انہیں ایک ایک کرکے پیداوار بند کرنے پر مجبور کیا ہے اور اس کا اثر اب ادویات کی عدم دستیابی کی صورت میں مارکیٹ میں نظر آنے لگا ہے۔
ایک اور صنعت کار نے بتایا کہ لیتھیم کاربونیٹ 9 مختلف کمپنیاں تیار کرتی ہیں لیکن خام مال کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور پیداواری لاگت کے آسمان کو چھونے کے بعد اب ان میں سے کوئی بھی اسے تیار نہیں کر رہا ہے۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے چیئرمین قاضی منصور دلاور نے اعتراف کیا کہ مقامی صنعت کی جانب سے متعدد ادویات کی پیداوار روکنے کے سے مارکیٹ میں بحران پیدا ہو رہا ہے۔
کرونا بحران پر قابو پاکر گزشتہ ایک سال سے عالمی منڈی کو کھولا گیا تھا بحران کے بعد ہم عالمی منڈی میں خام مال کی قیمتوں میں بہت زیادہ فرق دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم تیزی سے کم ہوتے ہوئے منافع کے مارجن کے باوجود ادویات کی سپلائی کو جاری رکھے ہوئے تھے لیکن مقامی سطح پر بڑھتی ہوئے پیداواری لاگت نے اب چیزوں کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ کمپنیاں مزید نقصان برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لیے وہ خام مال درآمد نہیں کر رہی ہیں اور بالآخر اب کئی دوائیں تیار نہیں کر پائیں گی۔ انہوں نے حکومت کو تجویز پیش کی کہ ادویات کی قیمتوں میں ایک حد تک اضافہ کیا جائے اور حالیہ بحران پر قابو پانے کے لیے ان کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے اگر ایسا نہ کیا تو آنے والے دنوں میں بحران مزید شدت اختیار کرجائے گا۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ایک ذمہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی پی ایم اے ادویات کی قلت کے معاملے پر بلیک میلنگ کر رہی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ تمام ادویات کی قیمتوں پر 40 فیصد اضافہ کرلیا جائے جو کسی صورت ممکن نہیں۔
دنیا کے کون سے ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ تمام ادویات کی قیمتیں ایک ساتھ بڑھا دی جائیں، پاکستانی عوام پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ قیمتیں ایک ساتھ بڑھا دی جائیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہم سمجھتے ہیں ایسی کوئی دوا نہیں ہے جس کی پیداواری لاگت کا مسئلہ ہو اور پیداواری لاگت کو جواز بناکر دوا کی تیاری بند کردی ہو،ایسی کوئی ایک دوا نہیں ہے۔
ایسی ادویات ضرور ہیں جن کی باہر سپلائی چین متاثر ہوئی ہے یا جس کا کوئی جینین ایشو ہو جن کی قیمتوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔

ہم نے ورکنگ کرکے جو رپورٹ تیار کی ہے اس کے مطابق 35 کے قریب ادویات ہیں جو ہارڈشپ کیسز میں شامل ہیں جن کی قیمتوں میں اضافہ ہونا چاہیے اور ان ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی سفارش کابینہ کو بھیجی گئی ہے۔
لیتھیم کاربونیٹ کی جہاں تک بات ہے وہ بھی ان ہارڈشپ کیسز میں شامل ہے، یہ ہارڈشپ کیسز پینڈنگ میں ہیں اور ان کی قیمتوں کا فیصلہ کابینہ نے کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی پی ایم اے کو چاہیے کہ وہ تھوڑی قربانی دیں کیوں کہ اس وقت جو ملک کے حالات ہیں وہ ایسے نہیں ہیں کہ عوام پر مزید بوجھ ڈالا جائے۔ اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ 75 ہزار ادویات پر ایک ساتھ اضافہ کرلیاجائے۔

Leave a reply