پاکستان میں یک جماعتی سیاسی نظام . تحریر:سنگین علی زادہ

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کو دیکھا، مجھے یوں لگتا ہے کہ مستقبل میں تمام سیاسی جماعتوں میں سے قابل لوگوں کو منتخب کر کے، ایک ایسی سیاسی جماعت بنائی جائے گی جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے قابل ترین افراد شامل ہوں گے۔
پاکستانی سیاست میں ایک ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک سیاسی جماعت میں ضم کر کے صرف واحد قومی سیاسی جماعت بنے۔ بالکل اسی طرح جیسے چین میں یک جماعتی سیاسی نظام ہے۔ اس کے فائدے ہی فائدے ہیں۔ ایک تو ملک سے انصافیوں، جیالوں، پپلیوں اور پٹواریوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور پیچھے خالص اور سیاست سے پاک پاکستانی رہ جائیں گے۔ دوسرا یہ اسلامی نظامِ حکومت کے نزدیک ترین ہے کہ اسلامی نظامِ حکومت میں پارٹیاں نہیں ہوتیں۔
خود عمران خان چین میں صدر کے چناؤ اور صدارتی امیدوار نامزد کرنے کے طریقہ کار کی تعریف کر چکے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں عمران خان کے زہن میں چینی نظامِ سیاست امریکہ کے نظامِ سیاست سے بھی بہتر ہے۔
یک جماعتی سیاسی نظام میں صرف ایک سیاسی جماعت ہوتی ہے۔ اس میں قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کو عوام منتخب نہیں کرتے۔ بلکہ سیاسی پارٹی کے ارکان کا آپس میں مقابلہ کروا کے پارٹی کے ارکان کے زریعے ہی قومی و صوبائی اسمبلیوں کےلیے لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں کچھ قابل اور ایماندار سیاست دان موجود ہیں۔ نا تو ایسا ہے کہ سارے سیانے لوگ صرف پی ٹی آئی یا ن لیگ میں ہیں۔ اور نا ہی ایسا ہے کہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی یا تحرiیکِ لبیIک میں تمام کے تمام لوگ قابل ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں کچھ ہیرے، کچھ موتی، جبکہ کچھ کنکر پتھر ہیں۔اگر ایسا ہو جائے کہ ہر جماعت کے ان ہیرے موتیوں کو الگ کر دیا جائے۔ اور کنکروں پتھروں وغیرہ کی چھانٹی کر کے باہر کر دیا جائے۔ پھر تمام ہیروں کو اکھٹا کر ایک جماعت میں ضم کر دیا جائے اور باقی کی تمام سیاسی پارٹیوں کو ختم کر دیا جائے، تو ایک ایسی سیاسی پارٹی بن سکتی ہے جس میں امریکہ کے ساتھ سیاسی جنگ لڑنے کی صلاحیت موجود ہو گی۔
اس کے کئی فائدے ہوں گے مثلاََ
1 وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی اور خارجہ معاملات سنبھالنے کا اضافی فوج جی ایچ کیو سے کم ہو جائے گا۔
2۔ سفارت کاری کے میدان میں جس طرح پاکستان اب بہت پیچھے دھکے کھاتا پھر رہا ہے، یہ دھکے کھانے سے بچ جائے گا۔
3 کثیر جماعتی سیاسی نظام ملک میں جو انتشار اور افراتفری پیدا کرتا ہے وہ ختم ہو جائے گا۔
4 سول اداروں کے اندر جو سیاسی مداخلت ہوتی ہے وہ سو فیصد سے کم ہو کر صرف دس فیصد رہ جائے گی۔ درجنوں سیاسی جماعتوں کے بجائے صرف ایک سیاسی جماعت ہونے کی وجہ سے۔
5 ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے معاملات میں جو سیاسی مداخلت ہوتی ہے اور اس کے جواب میں سیاست کے اندر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے، یہ آپس کی چھیڑ چھاڑ اور لڑائی بھی ہمیشہ کےلیے ختم ہو جائے گی۔
6 سیاسی مقاصد اور مفادات کے تحت ملک میں جو لسانی، صوبائی اور فرقہ وارانہ تقسیم سیاسی جماعتیں پیدا کرتی ہیں وہ ختم ہو جائے گا۔
7۔ سیاسی جماعتیں آپس میں الیکشن لڑنے کےلیے ہر پانچ سال بعد مجموعی طور پر اربوں روپے خرچ کرتی ہیں۔ یہ اربوں روپے خرچ کر کے اسمبلی تک پہنچتی ہیں اور اسمبلی پہنچنے کے بعد کھربوں روپے کی دیہاڑیاں لگاتی ہیں۔ اگر ایک ہی سیاسی جماعت ہو ملک میں تو الیکشن کی وجہ سے ہونے والے کھربوں روپے کے یہ ہیر پھیر بھی ختم ہو جائیں گے۔
8 ملک سے نسل در نسل چلنے والی موروثی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ بادشاہت کی طرح جو پہلے دادا ایم این اے بنتا ہے، پھر بیٹا منسٹر بنتا ہے اور پھر پوتا وزیر بنتا ہے اس کا ہمیشہ کےلیے خاتمہ ہو جائے گا۔
9 غیر ملکی ایجنسیوں کےلیے کثیر سیاسی جماعتی نظام میں اپنے مطلب کے لوگوں کی منڈی لگی ہوتی ہے۔ یونین کونسل کے چیئرمین سے لے کر فیڈرل منسٹر تک، غیر ملکی ایجنسیاں ہمیشہ اپنے مطلب کا بندہ ڈھونڈنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ ایک ہی سیاسی جماعت ہو تو یہ لعنت کم ہو جائے گی۔
10 یک جماعتی سیاسی نظام کے زریعے سرمائے کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یعنی ارب پتی آدمی اپنے ایک ارب روپے میں سے دس کروڑ روپے کا خرچہ کر کے الیکشن جیت جاتا ہے۔ اور پھر کئی ارب کماتا ہے۔ اگر مناسب چیک اینڈ بیلنس رہے تو یک جماعتی نظام میں یہ لعنت بھی نہیں رہے گی۔
11 جاگیردار، نوابزادے، رئیس، انڈسٹریل لوگوں کا سیاست سے قبضہ ختم ہو جائے گا۔ بس سیاست صرف قابل لوگوں کا عقلی کھیل رہ جائے گی۔
یک جماعتی سیاسی نظام کے فائدے تو اتنے ہیں کہ ان پہ کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ چین اسی یک جماعتی سیاسی نظام کے زریعے سپر پاور بننے جا رہا ہے۔
دیکھیے آپ کے پاس پانچ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے والی گاڑی موجود ہو۔ مگر سڑک جس پہ وہ گاڑی چل رہی ہو، اس میں جمپ ہی اتنے ہوں کہ گاڑی ساٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اوپر جا ہی نہ سکے تو آپ کو چاہیے کہ آپ اس سڑک کو اتنا بہتر کرو کہ اس پہ گاڑی پانچ سو کلو میٹر فی گھنٹہ دوڑ سکے۔ موجودہ سیاسی نظام پہ آپ ملک کی گاڑی کو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑا رہے ہیں۔ جبکہ یہ گاڑی پانچ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی دوڑ سکتی ہے۔ تو بہتر ہے کہ سیاسی نظام کی اس سڑک کو اب تبدیل کر لیا جائے۔ کیوں کہ ہمسائے ملک بھارت کے علاوہ اب بنگلہ دیش جو سنہ 71 میں ہم سے آزاد ہوا تھا، اس کی گاڑی بھی ہم سے بہتر دوڑ رہی ہے۔ ہمیں بھی اب اپنی سیاسی سڑک بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Comments are closed.