پاکستان کے حالیہ ہیرو ایتھلیٹ “ارشد ندیم” کے ایک انٹرویو میں کہے گئے کلمات نے دل کو جیسے چھلنی کر دیا ہو۔ اُس متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے محنتی اور حب الوطنی کے جزبے سے سرشار کھلاڑی نے ایک ہی جملے سے بلخصوص پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور بالعموم پاکستان حکومت سے اپنے گِلے کا اظہار تو کیا لیکن اس کے ساتھ میں سمجھتی ہوں کہ سب کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اُٹھا دیے ہیں
ارشد ندیم نے کہا:
کہ انہیں "شرم” محسوس ہوتی ہے کہ انہوں نے پاکستان کے لیے تمغہ نہیں جیتا ، لیکن افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں اس وقت کھلاڑیوں کے لیے جو تربیتی سہولیات اور سرکاری امداد دستیاب ہے۔ اس کی موجودگی میں "دل جیتنا تو ممکن ہے ، تمغے نہیں”
ارشد ندیم پاکستان کا وہ ہیرو ہے جس نے کروڑوں پاکستانیوں کو ایک امید، ایک خواب اور گھٹن کے ماحول میں تازگی کا احساس دیا۔
سیمی فائنل میں بہترین کارکردگی کے باعث نہ صرف ہر پاکستانی بلکہ دنیا بھر کے کھیلوں کا شغف رکھنے والے ہر ناظر کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔ پاکستانیوں کو ایک امید دی کہ 1988 کے بعد شائد ایک بار پھر یہ خواب حقیقت کا روپ دھار لے اور پاکستان کو اولیمپک کھیلوں میں کوئی سونے کا تمغہ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہو جائے۔
لیکن فائنل میں پاکستان یہ اعزاز حاصل کرنے سے محروم رہا۔
گو ارشد ندیم یہ اعزاز تو حاصل نہ کر سکا لیکن اپنی بھرپور کوشش اور محنت سے پاکستانیوں کے دل جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔ ہر پاکستانی نے ارشد ندیم کو وہ محبت اور عزت دی جس کا وہ حقدار ہے۔
ایک اہم سوال جو اس وقت ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے کہ جب حکومت ہر سال کروڑوں روپے مختلف کھیلوں کے فروغ پر خرچ کر رہی ہے۔ کھیلوں کے مختلف ادارے قائم ہیں اور ہر ادارے میں لاکھوں کی تنخواہ لینے والے افسران سالوں سے اپنے عہدوں پر براجمان ہیں لیکن جب بات اِن کی کاردگی کی ہو تو وہ نہایت ناقص ہے۔ ہر بار کھیلوں کے اداروں کی کارکردگی پر سوالات اُٹھتے ہیں لیکن اُن میں کسی قسم کی بہتری نظر نہی آتی۔
اولمپکس میں کسی بھی ٹریک اینڈ فیلڈ ایونٹ کے فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والے تاریخ کے پہلے پاکستانی ارشد ندیم کا مقصد 1988 کے بعد اپنی قوم کے لیے انفرادی تمغہ جیتنے والا پہلا اولمپین بننا تھا۔
اس مقابلے کے تیسرے دن 85.16 میٹر کے بہترین تھرو کے زریعے فائنل میں پہنچنے والا ارشد ہفتہ کو پانچویں نمبر پر رہا جبکہ نیرج چوپڑا نے 87.58 میٹر کا بہترین تھرو جیت کر ہندوستان کے لیے تاریخی پہلا اولمپک ایتھلیٹکس گولڈ میڈلسٹ بننا تھا
ایسا بار ہا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جیسے پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیل ترجیحی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ ماضی میں بھی تمام حکومتوں کو کرکٹ کا جنون رہا ہے۔ پاکستان میں کسی بھی میدان کے لئے ٹیلنٹ کی کمی نہیں، لیکن اُن دیگر کھیلوں کے سرپرست اداروں کی طرف سے دی گئی سہولیات کی کمی، عدم دلچسپی، افسران اور اداروں کے سرپرستوں کا سفارش یا سیاسی پشت پناہی کے بل بوتے پر سالہاسال سے عہدوں سے چمٹے رہنا اس ناکامی کی اصل وجہ ہے۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو ہی لے لیجئیے! اس ادارے کے سرپرست ریٹایرڈ سید عارف حسن پچھلے چودہ سالوں سے اس ادارے کی سرپرستی کر رہے ہیں لیکن کارکردگی صفر ہے۔
حکومت کی جانب سے جب بھی اِن سے کارکردگی پر بات کی جاتی ہے تو موصوف کا یہ جواب اِن کی شخصیت اور انا پرستی کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ایک آزاد ادارہ ہے اور اگر حکومت نے زیادہ دخل اندازی کی تو ہم ورلڈ اولمپک سے کہہ کر پاکستان پر اولمپک میں حصہ لینے پر بین کروا دیں گے۔
اگر اسی بیان ہی کو دیکھا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج تک پاکستان اولمپک گیمز سے کوئی میڈل کیوں نہی جیت سکا۔
نہ صرف ارشد نے بلکہ اُن کے کوچ نے بھی ادارے کی طرف سے دی گئی سہولیات کی کمی اور عدم توجہ کی شکایت کی ہے۔
ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ریٹایرڈ سید عارف حسن فی الفور اپنے عہدے سے مستعفی ہوں اور حکومت پوری توجہ سے اس ادارے کو از سرِنو ترتیب دے تاکہ دوبارہ کوئی ارشد ندیم اس طرح دلبرداشتہ اور انتہائی ٹیلنٹڈ ہونے کے باوجود اس طرح اعزاز سے محروم نہ ہو۔
ایتھلیٹ ارشد ندیم نے انٹرویو میں حکومت پر زور دیا کہ وہ سہولیات کو بہتر بنائے ، فنڈنگ میں اضافہ کرے اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود میں سرمایہ کاری کرے: "میں اس بار اولمپکس میں پانچویں نمبر پر آیا۔ اگر سہولیات کو بہتر بنایا گیا تو میں 2024 اولمپکس میں پاکستان کے لئے بڑا اعزاز حاصل کر سکتا ہوں۔
ندیم کے فزیوتھیراپسٹ نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ "جو لوگ چار یا پانچ نمبر پر آتے ہیں وہی ہیں جن پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔”
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے میڈیکل کمیشن کے سیکرٹری ڈاکٹر اسد عباس شاہ نے عرب نیوز کو بتایا ، "ارشد ندیم فائنل میں پریشانی میں مبتلا تھے اور ایسی چیزیں اس وقت ہوتی ہیں جب کوئی انتہائی شائستہ پس منظر سے ہو۔”
قارئین کیا آپ نے ہندوستانی ایتھلیٹ کے ساتھ ٹوکیو میں حاضر دستہ دیکھا؟
وہ اپنے ساتھ ایک آسٹیو پیتھ ، فزیوتھیراپسٹ ، اسپورٹس سائیکالوجسٹ ، ڈاکٹر ، آرتھوپیڈک سرجن اور حتیٰ کہ نیورولوجسٹ لے کر آئے تھے۔ ان کے پاس ایک آرکسٹرا ہے۔ ہمارے پاس کیا ہے؟
اور بقول فہمیدہ راجہ ہماری اولمپک ایسوسی ایشن نے کھلاڑیوں کے ساتھ باقاعدہ پروفیشنل کوچز روانہ کرنے کے بجائے اپنے ادارے کے افسران کو سیر کرنے بھیج دیا۔ جب اس طرح اقربا پروری اور زاتی مفادات کو فوقیت دی جائے گی تو پھر اسی طرح ہی کی کارکردگی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
“ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمغہ ہمارے ہاتھ سے پھسل گیا۔”
اور اس کی ساری کی ساری زمہ داری پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سرپرست اور دیگر عہدا داران کی ہے جنہوں نے کئی سالوں سے اس ادارے کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے ساتھ ساتھ زاتی مفادات کے حصول کا زریعہ بنا دیا ہے۔
تحریر: ماریہ ملک
@No1Mariya