پاکستان اورپاکستانی سیاست . تحریر: نواب فیصل اعوان

پاکستان کو بنے 74 سال بیت جانے کے باوجود بھی پاکستان حقیقی معنوں میں وہ پاکستان نہیں بنا جس کا تصوراقبال نےدیکھا تھا اورقاٸداعظم نےعملی جامہ پہنایا تھا. سیاست نے ہمیں اس قدرگرا دیا ہے کہ ہم انسانیت کے درجے سے ہی گرگئے ہیں. پاکستان بننے سے لے کر اب تک کی پاکستانی سیاست کواگردیکھا جائے تو پاکستانی سیاستدانوں کی آپسی چپقلش اوروڈیرہ شاہی کی ہی وجہ سے ہم بنگلہ دیش سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں. اگراس وقت بھٹو اورمجیب دونوں مل کے اپنے مساٸل ملکی سلامتی کیلۓ حل کرلیتے تو آج بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ ہوتا اور ہم آپسی اتحاد واتفاق کی بدولت دنیا کی متحد، ترقی یافتہ اورمہذب قوم گردانے جاتے مگرافسوس کہ ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گئے.

اگرموجودہ صورتحال اورسیاست کا موازنہ کیا جاۓ تومیرے خیال سے پاکستان عالمی سطح پہ پاکستانی سیاستدانوں کی ہی وجہ سے بدنام ہے. ہم اپنے مفادات کی خاط ملک پاکستان سےغداری کرتے گئے اورحالات ایسے ہوچکے ہیں کہ ہرمحب الوطن پاکستانی ان حالات پہ پریشان ہے. پاکستان کے قیام سے لے کراب تک صرف چارسو خاندان اس ملک کی سیاست پرراج کرتے آئے ہیں ان خاندانوں کو مزید تقسیم کر دیا جائے تو ان کی تعداد تقریباﹰ ایک ہزاربنتی ہے. آج تک یہی بے رحم ایلیٹ کلاس اقتدارکے ایوانوں میں بیٹھ سکتے ہیں، بلکہ غریب عوام کو خوشحال بنانے، انہیں تین وقت کی روٹی دینے، سڑکیں، گلیاں، تعلیم اورصاف پانی فراہم کرنے کے نعرے لگاتی آئی ہے گو کہ کسی نے ایسا ممکن نہیں بنایا.

پاکستان میں بدترین فوجی آمریت ہو یا جمہوریت، حکومت مسلم لیگ کی ہو یا پیپلز پارٹی کی، تحریک انصاف کی ہو یا پھر ق لیگ کی، اسمبلیوں تک نوے فیصد انہی ایک ہزارخاندانوں کے جاگیردار، زمیندار، صنعت کار اورقبائلی سردار پہنچتے ہیں باقی سیاستدانوں کو یا تو جبری دستبردارکرایا جاتا ہے یا ایسے کردارکشی کی جاتی ہے کہ اللہ امان وہ خود ہی تنگ آ کے سیاست سے دوری اختیارکرجاتے ہیں.
اس وقت بیشتر سیاسی جماعتیں محض نام کی جمہوری جماعتیں ہیں ان نام نہاد جمہوری سیاسی جماعتوں کے تمام ترفیصلے صرف چند لیڈر آمرانہ اندازمیں کررہے ہیں ان سیاسی جماعتوں کی جمہوریت کی اوقات صرف اتنی ہے کہ ایک طرف عشروں سے چلے آ رہے یہ خاندانی لیڈرہیں اوردوسری طرف ان کی پیروی کرنے والے نسلی غلام ہیں.

یہی سلسلہ نسل درنسل چلا آرہا ہے. پچاس کی دہائی سے لے کرآج تک تقریباﹰ ان ایک ہزارخاندانوں کا مرکزی مقصد اپنے ذاتی مفادات، اپنے رشتہ داروں، اپنے خاندان یا پھرزیادہ سے زیادہ اپنے قبیلے یا برادری کے مفادات کا تحفظ رہا ہے باقی عوام کو وعدوں کے چورن ہی بیچے گئے ایک پلڑے میں پاکستان کے نوے فیصد قانون سازوں، ایم پی ایزاورایم این ایزکی ذاتی لینڈ کروزرز، محل نما بنگلوں، زمینوں اور جائیدادوں کو رکھیں اوردوسرے پلڑے میں پاکستان کے دو سو ملین سے زائد عوام کو ملنے والی سہولیات کو رکھیں، آپ کو فرق سے پتہ چل جائے گا کہ قوم یا عوام کے مفاد میں انہوں نے کس قدر ’’جانفشانی‘‘ سے کام کیا ہے. عوام ان سیاستدانوں سے اپنی بنیادی سہولیات تک مانگتے ہوۓ ڈرتی ہے کیونکہ یہ زمینی خدا بنے بیٹھے ہیں.

بقول نواب فیصل فیبی، میں ڈرتا ہوں ان سے کوئی بھی درخواست کرنے کوسفید پوش ہوں ڈرلگتا ہے کہیں پرچے نہ کرا دیں پاکستان کی سیاست اب غلاظت کے سوا کچھ نہیں رہی ایک دوسرے پہ الزام تراشیوں سے لیکرایک دوسرے کی کردارکشی تک سب چلتا ہے. غیرملکی آقاٶں کو خوش کرنے کیلۓ اس ارض پاک کے خلاف بیانات دے کریا اشتعال انگیزی پھیلانے سے بھی گریزنہیں کیا جاتا ہے.

فرمان قاٸد ہے کہ، اگر ہم اس عظیم مملکت کو خوش اورخوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں اوربلخصوص غریب طبقے کی فلاح و بہبود پرمرکوزکرنی ہوگی.

لیکن افسوس ہم بانی پاکستان قاٸداعظم محمد علی جناح کے سنہری اقوال ہی بھول گئے ہیں. یہی پاکستانی سیاست دان اسراٸیل کے دوروں پہ جاتے رہے ہیں جبکہ قاٸد فرما گئے تھے کہ ” اسراٸیل ایک ناجاٸز ریاست ہے جسے امت کے پیٹ میں گھونپا گیا ہے اسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا “

الغرض ہم اپنی تاریخ اوراپنے محسنوں کو بھول کے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے لگ گئے اورپاکستان کو ایک صدی پیچھے جا چھوڑا ہے. ہم نے اجداد کے خون کے ساتھ وفا نہ کی، ہم اجداد کی قربانیاں بھول گئے، ہم بے حس ہوگئے، کسی بھی ملک کی سیاست اورسیاستدان ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں اگر ہڈی مضبوط ہے تو آپ کھڑے ہیں اگر ہڈی ٹوٹ جاۓ تو آپ بیٹھ جاتے ہیں اوریہی کچھ میرے ملک پاکستان کے ساتھ پاکستانی سیاستدانوں نے کیا ہے.

@NawabFebi

Comments are closed.