پاکستانی سمندروں میں پائی جانے والی جیلی فش کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جس پر تحقیق وقت کی ضرورت ہے اس آبی مخلوق کی وجہ سے کئی مرتبہ ماہی گیری کا پہیہ رک چکا ہے-

باغی ٹی وی : پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج جیلی فش کا عالمی دن منایا جارہا ہے سمندروں کی وسیع و عریض دنیا میں بے شمار آبی جاندار پائے جاتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ان سبھی جانوروں کو ابھی تک انسان دریافت بھی نہیں کر پایا ہے جیلی فش کا شمار ایک ایسی آبی مخلوق میں کیا جاتا ہے جو منفرد ہونے کی وجہ سے انسانوں کی دلچسپی کا سبب بنتی ہے۔ لیکن کم لوگ ہی یہ بات جانتے ہیں کہ جیلی فش انسانوں کے لیے مہلک اور جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

جیلی فش سطح ِ سمندر سے لے کرسمندر کی گہرائی تک پائی جاتی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ جیلی فش50 کروڑ سال سے ہمارے سمندروں کا حصہ ہیں۔ جیلی فش کہلائی جانے والی یہ آبی مخلوق ماہرین کے نزدیک مکمل مچھلی کی خصوصیات نہیں رکھتی اسی لیے بعض اوقات انہیں صرف جیلیز بھی کہا جاتا ہے۔

دریائے سندھ کے کریک ایریاز جبکہ بلوچستان کے ساحلی مقامات جیوانی،گوادر اور کلمت کھور میں 15 سے20 زیادہ اقسام کی جیلی فش رپورٹ ہوچکی ہیں اور ان میں سے ایک قسم ڈیڑھ من سے زیادہ وزنی ہے، اس آبی مخلوق کی وجہ سے کئی مرتبہ ماہی گیری کا پہیہ رک چکا ہے ۔

ماہرین کے مطابق جیلی فش قدرتی ماحول کاایک حصہ ہے ابھی تک ان عوامل کا تعین نہیں ہوسکا ہے کہ جیلی فش کی تعداد اچانک کیوں اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ یہ سمندر میں وسیع کالونیاں یا بلوم بنالیتے ہیں۔ یوں سمندر کا ایک بہت بڑا حصہ ان سے بھر جاتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف(پاکستان)کےتکنیکی مشیر محمد معظم خان کے مطابق پاکستان میں جیلی فش کی 15 سے 20 اقسام پائی جاتی ہیں۔ کچھ جیلی فش ایسی ہیں کہ جن کے کانٹوں کی رگڑ سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہیں جبکہ کچھ میں صرف وقتی طور پر شدید تکلیف کا سامنا رہتا ہے،جو بعد میں خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جیلی فش کا ایک بہت بڑی تعداد میں ملنا اس بات کا غماز ہے کہ یہ غیرمعمولی اضافہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہورہا ہے پہلے اتنی بڑی تعداد سمندر میں نمودار نہیں ہوتے تھے پاکستان میں بہت کم عرصے کے دوران لگ بھگ 16مرتبہ جیلی فش کے بلوم یا غیرمعمولی افزائش کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں سن 2003اور2004 کے درمیان جیلی فش کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ ماہی گیری ایک سال تک مکمل طور پربند ہوگئی تھی اور دوسری مرتبہ سن 2018 میں اس کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے ماہی گیری 6 ماہ تک متاثر رہی یہ تعداد اتنی زیادہ تھی کہ پاکستان کے علاوہ ایران،بھارت،اومان بلکہ یمن تک یہ جیلی فش پھیلی ہوئی تھی۔

امریکی ریاست میری لینڈ کے صدر مقام بالٹی مور میں قائم ماہی خانے کا شمار دنیا کے چند سب سے بڑے ماہی خانوں میں کیا جاتا ہے۔ اس کے ایک حصے میں گذشتہ تین برسوں سے یہاں نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر سے خصوصی طور پرمختلف اقسام کی جیلی فش اکٹھی کی جا رہی ہیں ۔

عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ نسانی سرگرمیوں کے ماحول پر منفی اثرات کے باعث آبی جانداروں کو بھی بڑے پیمانے پر خطرات لاحق ہوچکے ہیں ۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بالٹی مور ایکوریم میں جیلی فش شعبے کے سربراہ جیک کوور کہنا ہےکہ ماحول پر انسانی سرگرمیوں کے منفی اثرات کے نتیجے میں سمندروں میں جیلی فش کی افزائش میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہواہے۔

جیلی فش تقریبا 92 فیصد پانی کی بنی ہوتی ہے اور اس کی 85 مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ دماغ، سانس، حسیات اور ہاضمے کا مکمل نظام نہ ہونے کے باوجود جیلی فش دن کے چوبیس گھنٹے خوراک کھاتی ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے میں ماحول میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور آبی حیات کے بے دریغ شکار کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی تعداد بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ کیونکہ جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں بآسانی پروان چڑھ سکتی ہیں۔

جیلی فش کا عالمی دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ اس پر تعلیمی اور دیگر ریسرچ آرگنائزیشن کو کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا پر عذاب کی شکل میں نمودار ہونے والی اس آبی مخلوق کے بڑھنے کی وجوہات کا پتہ چل سکے،کیونکہ یہ بہت زیادہ نقصان کا باعث بھی بنتی ہے،نہ صرف ماہی گیری کا پہیہ رک جاتا ہے بلکہ پاور پلانٹس بند ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں اس تحقیق کا ایک اور بھی فائدہ ہے کہ اس سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ جس جیلی فش کی دنیا میں مانگ ہے وہ اگر پاکستانی سمندروں میں بڑھ جاتی ہے،تو اس کے ایکسپورٹ کے حوالے سے ایک مینجمنٹ پلان بنایا جاسکتا ہے۔

جیلی فش کے نقصان سے قطع نظر اس کا ایک فائدہ بھی بلوچستان کے ساحلی مقامات کے ماہی گیروں کو پہنچتا ہے،دریائے سندھ کے کریک ایریا،بلوچستان کے کلمت کھور،پسنی،جیوانی اور گوادر میں اس دوران پائی جانے والی جیلی فش کی 2اقسام ایسی ہیں جن کو نمک اورپھٹکری سے ٹریٹ کرکے چائنا ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔

معظم خان کے مطابق جیلی فش سمندر سے ملنے والے فوڈ چین کا آخری حصہ ہے،جسے عام طورپر آبی مخلوق بھی نہیں کھاتی البتہ کچھووں کی کچھ اقسام کی خوراک جیلی فش ہے،یہ صورتحال اس بات کی بھی عکاس ہے کہ جب بہت بڑے پیمانے پر مچھلی کا شکار کرلیا جاتا ہے،تو آخر میں جیلی فش ہی باقی رہ جاتی ہے جوکہ ماہی گیری کے لیے تباہ کن ہے،دنیا بھر میں جیلی فش کی 400 سے 500 کے قریب اقسام ملتی ہیں،جو ایک پن ہول سے لے انسان سے بھی 100 گنا بڑی ہوسکتی ہیں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی آبی مخلوق جیلی فش ہی ہے،پاکستان میں جو جیلی فش ملتی ہے وہ ڈیڑھ من تک وزنی ہوتی ہے،یہ ان دواقسام میں شامل ہے جو بیرون ملک ایکسپورٹ کی جاتی ہے۔

Shares: