پاکستان سے ہمارا روح کا رشتہ ہے تحریر : راجہ ارشد

یہ بات دل کو سکون دیتی ہے. جسم میں جیسے جان آ جاے روح کو تازگی مل گئ ہو.
لیکن کیا ہم اس کی قدر کر رہے ہیں. کیا ہمارے اعمال اس بات کی اکاسی کر رہے ہیں؟ کیا پاکستان حاصل کرنے کا مقصد بھی پورا کر رہے ہیں؟
پاکستان جس کے لیے ماؤں نے لعل کٹواے، بہنوں نے بھائی گنواے. باپ نے اپنا سہارا کھویا. بیٹی کا سایا گیا تو بیوی کا سہاگ. اتی قربانیاں پاکستان تو دے گئیں لیکن 75 سال میں ہم قوم نا بن سکے. ایسا لگتا ہے سب کچھ رائیگاں کر دیا گیا. پاکستان مملکت تو مل گئ لیکن ہم اس کی قدر نا کر سکے. یہ کیسی آزادی ہے جہاں بچیوں کا ریپ کیا جاے، عورتیں نیم برہنہ لباس پہن کر فخر محسوس کریں، کسی کی بہن بیٹی کی عزت اجاڑنا سٹیٹس سمجھا جائے، کسے کو نوکری دے کر غلام سمجھا جائے، کسی کی مدد کر کہ اسکی غریبی یا تنگدستی کا مزاق اپنے کیمرے کی آنکھ میں بند کیا جاے پھر اس کی تشہیر سے خود کو خدا ترس سمجھا جائے. کیا یہ مقصد تھا قیام پاکستان کا؟
کیا ہم بحیثیت پاکستانی پاکستان کا حق ادا کر رہے ہیں.
افسوس!
ہم ملاوٹ کا بازار گرم کر رہے، ساتھ والے کو دھوکا دے کر فخر سے سینہ چوڑا کرتے اور خود کو عقلمند ثابت کرتے. کمزور کا حق کھا کر خود کو طاقتور ثابت کرتے ہیں لیکن یہ پاکستانی ہونے کا حق ادا نہیں کر رہے.خدارا ہوش کے ناخن لیں پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان بنائیں اپنا اخلاق اچھا بنائیں اپنا کردار اچھا بنائیں تاکہ دنیا میں اپنا وقار بحیثیت قوم دوبارہ حاصل کر سکیں
قائد اعظم محمد علی جناح کے منشور کو سمجھیں؛ یمان اتحاد اور تنظیم سے اپنے پاکستان کے رنگوں کو دوبارہ تازگی بخشیں. دین کی سربلندی کے لیے اپنی کردار کو نمونہ بنا کر مثال بنا کر معاشرے میں پیش کریں تاکہ پاکستانی اور سچے مسلمان کی صحیح معنوں میں پہچان ہو سکے. ہمیں آج عہد کرنا ہے. پاکستان اور اسلام سے وفا کرنی ہے خود کو بدلنا ہے اور اپنی ایک نئ پہچان بنانی ہے جو حصول پاکستان اور اسلامی تہزیب کی بنیاد ہے.
ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح رح نے ہمیں نا صرف یہ تحفہ پاکستان عطا کیا بلکہ ہمیں جینے کا سلیقہ بھی بتا کر گئے آج ان کے فرامین کو فراموش کر ہے ہم مزید پستی کا شکار ہو گئے ہیں ہمیں خود کو پہچاننا ہو گا آج کی تحریر میں میں ان کے فرامین کو دوبارہ شامل کرنے کا شرف حاصل کروں گا.
قائد اعظم محمد علی جناح نے 28 دسمبر 1947 کو کراچی کے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ” *مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد، یقینِ محکم اورتنظیم ہی وہ بنیادی نکات ہیں جو نہ صرف یہ کہ ہمیں دنیا کی پانچویں بڑی قوم بنائے رکھیں گے بلکہ دنیا کی کسی بھی قوم سے بہتر قوم بنائیں گے* ”
قائد اعظم محمد علی جناح نے 30 اکتوبر 1947 کو لاہور کے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ” *دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی* ”
قائد اعظم محمد علی جناح نے 15 جون 1948 کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ” *ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سےکوئی بھی سندھی ، بلوچی ، بنگالی ، پٹھان یا پنجابی نہیں ہے۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہئیے* ”
11 اگست کو قانون ساز اسمبلی میں فرمایا.” *انصاف اور مساوات میرے رہنماء اصول ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ہم پاکستان کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بنا سکتے ہیں۔* ”
1944 میں مسلم یونیورسٹی یونین میں فرمایا
” *دنیا کی کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں حصہ نہ لیں۔ عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں بند کرنے والے انسانیت کے مجرم ہیں۔* ”
23 مارچ 1940 کو چٹاگانگ میں فرمایا. ” *پاکستان کی داستان ‘ اس کے لئے کی گئی جدوجہد اور اس کا حصول‘ رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے رہنماء رہے گی کہ کس عظیم مشکلات سے نبرد آزما ہوا جاتا ہے۔*”
21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ جلسے میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا. ” *یہ آپ کا اختیار ہے کہ کسی حکومت کو طاقت عطاکریں یا برطرف کردیں لیکن اس کے لئے ہجوم کا طریقہ استعمال کرنا ہرگز درست نہیں ہے۔ آپ کو اپنی طاقت کا استعمال سیکھنے کے لئے نظام کو سمجھنا ہوگا۔ اگر آپ کسی حکومت سے مطمئن نہیں ہیں توآئین آپ کو مذکورہ حکومت برطرف کرنے کا اختیاردیتا ہے لہذا آئینی طریقے سے ہی یہ عمل انجام پذیر دیا جاناچاہئے۔* ” یہی وہ کامیابی کی کنجی ہے جو اس قوم کو عمل کرنے سے بدل سکتی ہے

@RajaArshad56

Comments are closed.