پاکستان ترقی کر سکتا ہے مگر کیسے؟؟؟
رحیق اطہر

احسن اقبال صاحب کا شمار معروف پاکستانی سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ آپ مسلم لیگ نواز کے سرگرم راہنما ہیں اور اکثر و بیشتر پرمغز بیانات داغتے رہتے ہیں جس پر عوام کی طرف سے انھیں "ارسطو” کا لقب بھی دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز عوامی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر انھوں نے ایک پیغام شئیر کیا جس کی مخاطب پوری قوم کے سارے طبقات تھے مگر عوام کا ذکر نہیں کیا گیا۔ موصوف کی نگارشات کو کئی ایک لوگوں نے سراہا مگر مجھے بھی ان کی نگارشات سے کچھ کہنے کا موقع مل گیا۔ اپنی نگارشات عرض کرنے سے پہلے ضروری خیال کرتا ہوں کہ احسن اقبال صاحب کا "بیانیہ” بھی آپ کو بتا دوں چنانچہ موصوف کہتے ہیں :

‏پاکستان ترقی کر سکتا ہے اگر جج “عدالت” تک، جرنیل “بارڈر” تک، عوامی نمائندے “پارلیمنٹ” تک، علماء “یگانگت” تک، افسران “عوامی خدمت” تک ، سرمایہ دار “کاروبار” تک “اور میڈیا “سچ” تک اپنا اپنا کام دیانت اور محنت سے کریں – اپنا کام چھوڑ کر سب کو دوسروں کی پڑی ہے- یہی ہماری بد قسمتی ہے-
احسن اقبال

ذیل میں ان کی اس ٹویٹ کا لنک دیا جا رہا ہے۔

اس پر میری گزارشات بالاختصار کچھ یوں ہیں :

جج عدالت تک رہیں تو آپ ان کے گھر تک پہنچ جاتے ہیں
(اور مرضی کا فیصلہ حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں)

جرنیل بارڈر تک رہیں تو آپ انھیں سیاست میں مداخلت کی دعوت دیتے ہیں
(ملک میں کوئی اہم مہم یا کام درپیش ہو، بھاگ کر فوج کی خدمات لی جاتی ہیں)

عوامی نمائندے سوائے پارلیمنٹ کے ہر جگہ خوشی محسوس کرتے ہیں
(کسی بھی عوامی نمائندے کی پارلیمنٹ میں حاضری کا ریکارڈ چیک کر لیں)

علماء کو ہر کوئی پوائنٹ سکورنگ کے لیے آگے کر دیتا ہے
(علماء کو سب لوگوں نے اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت سمجھ رکھا ہے اور اس سے بقدر ضرورت فائدہ اٹھاتے ہیں)

افسران کو پروٹوکول سے فرصت نہیں، آخر نوکری بھی تو بچانی ہوتی ہے۔
(سرکاری افسران کار سرکار کی بجائے عوامی نمائندوں کی نوکری میں مشغول رہتے ہیں)

سرمایہ دار کاروبار تو کرتا ہے مگر حلال و حرام کی تمیز نہیں، ویسے آج سے ہی اعلان کر دیں کوئی سرمایہ دار کسی سیاسی پارٹی کو جوائن نہیں کر سکتا تو امید ہے پاکستان سے سیاست دانوں کا وجود ختم نہ بھی ہوا تو آٹے میں نمک کے برابر رہ جائے گا۔

میڈیا سچ دکھائے تو آپ برا مان جاتے ہیں
(کسی کے بارے میں سچ پیش کیا جائے تو ذاتی زندگی میں مداخلت اور نہ جانے کون کون سے اعتراض سننے کو ملتے ہیں)

رحیق اطہر

احتساب کا عمل ہر ایک کو درست سمت میں گامزن رکھنے کے لیے ضروری ہے، قوانین و ضوابط اسی لیے بنائے جاتے ہیں مگر ان کا اطلاق بھی اسی صورت ممکن ہے کہ ایک دوسرے کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ ہر کسی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا سوائے تباہی کے کچھ نہیں ۔

صاحب آسان الفاظ میں یوں کہیے کہ کوئی احتساب نہ ہو، ہر کوئی اپنے دائرہ کار تک محدود رہے، کوئی کسی کو دیکھے نہ پوچھے، تو ملک کا پھر خدا پہ حافظ ہو گا۔

ریاستی امور میں ہر ایک کو رائے دہی کا حق ہے، یہی اصل جمہوریت ہے۔ اور دوسرے کی رائے سے اتفاق ہو یا اختلاف، احترام بہرصورت لازم ہے۔

ان گزارشات کی تفصیل سے احباب بخوبی آگاہ ہوں گے تاہم اگر کسی دوست کو کوئی بات سمجھ نہ آئی ہو تو پوچھ سکتے ہیں

Shares: