لندن: پاکستان کی وضاحتیں،دلیلیں اورکارکردگی کام نہ آئی:’ریڈ لسٹ’سے نام نہ نکل سکا ،اطلاعات کےمطابق پاکستانی ہائی کمیشن اور پاکستانی نژاد اراکین پارلیمان کی کئی ہفتوں کی لابنگ کے باوجود برطانوی حکومت کے سفری جائزے میں پاکستان کے لیے کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ ریڈ لسٹ میں برقرار ہے۔
ایک لاکھ سے زائد افراد کی آن لائن پٹیشن ،برطانوی ممبرپارلیمنٹ اورپاکستان کی کوششوں کے باوجود برطانیہ باز نہ اور ایک نئی کہانی سنا دی ہے ،پاکستان سے آنے والے مسافروں کے لیے دھچکا ثابت ہوگا جنہیں برطانیہ آنے پر ہوٹل میں 10 روز لازمی قرنطینہ کرنا ہوگا جس کی لاگت 2 ہزار 250 پاؤنڈز ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے حوالے سے برطانوی حکومت کے فیصلے پرپاکستان سے محبت کرنے والوںکو بہت مایوسی ہوئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ مانچسٹر گورٹن شیڈو کے لیبر رکن پارلیمنٹ اور ہاؤس آف کامنز کے ڈپٹی لیڈر افضل خان نے ایک ٹوئٹ میں ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کو ریڈ لسٹ میں برقرار رکھنے کے حکومتی فیصلے سے سخت مایوسی ہوئی’۔
Completely disappointed by the Gvt’s decision to keep Pakistan on the red list
With the crisis in Afghanistan underway, Pakistan can play a huge role in delivering key humanitarian aid
The decision will upset many & cause major disruption
I will continue to follow this matter pic.twitter.com/uJ1Fn8TnRY
— Afzal Khan MP (@AfzalKhanMCR) August 26, 2021
مانچسٹر گورٹن شیڈو کے لیبر رکن پارلیمنٹ اور ہاؤس آف کامنز کے ڈپٹی لیڈر افضل خان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسے میں کہ جب افغانستان میں بحران جاری ہے، پاکستان اہم انسانی امداد پہنچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اس فیصلے سے کئی لوگ پریشان ہوں گے اور انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔
ٹوئٹ میں مانچسٹر گورٹن شیڈو کے لیبر رکن پارلیمنٹ اور ہاؤس آف کامنز کے ڈپٹی لیڈر افضل خان نے پارلیمانی سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے ٹرانسپورٹ، رکن پارلیمان رابرٹ کورٹس کی جانب سے انہیں بھیجا گیا خط بھی شیئر کیا جنہوں نے گزشتہ سفری جائزے کے دوران پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھنے کے حکومتی فیصلے کے بارے میں مانچسٹر گورٹن شیڈو کے لیبر رکن پارلیمنٹ اور ہاؤس آف کامنز کے ڈپٹی لیڈر افضل خان کو جوابی خط لکھا تھا۔
دوسری طرف رابرٹ کورٹس نے کہا کہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ پاکستان کے ریڈ لسٹ میں رہنے کے فیصلے کا لوگوں پر کیا اثر پڑے گا تاہم یہ درست ہے کہ حکومت، برطانیہ میں درآمد ہونے والے کووڈ 19 کے نئے سلسلے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ برطانیہ میں ویکسین پروگرام کے لیے انتہائی اہم وقت میں کووڈ 19 کی نئی اقسام سے بچنے کے لیے کیا گیا۔
خط میں برطانوی رکن پارلیمان نے مزید کہا کہ تشویشناک اقسام وسیع پیمانے پر نگرانی کے طریقہ کار مثلاً جینومک نگرانی کے ذریعے شناخت کی جاتی ہیں، لیکن پاکستان میں اس کی صلاحیت اور گنجائش محدود ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانوی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ایک بڑی تعداد میں مسافر پاکستان سے ہر ہفتے برطانیہ آتے ہیں جس میں کووڈ 19 سے متاثرہ افراد کی شرح خاصی بلند ہے جبکہ ان میں تشویشناک اقسام سے متاثرہ افراد بھی شامل ہیں۔خط میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کے ریڈ لسٹ سے اخراج کے لیے وزرا کو مطمئن ہونا پڑے گا کہ برطانیہ میں وائرس کی آنے والی تشویشناک اقسام کا خطرہ کم ہوگیا ہے۔
Disappointed with decision to retain🇵🇰on Red List. Entails continuing hardship for thousands of Pakistanis and British Pakistanis. Had shared all relevant data. Question mark over equity & consistency of criteria being employed!@grantshapps @sajidjavid @JimBethel @tariqahmadbt
— Pakistan High Commission London (@PakistaninUK) August 26, 2021
دوسری جانب ایک ٹوئٹ میں پاکستانی ہائی کمیشن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں برقرار رکھنے کے فیصلےسے مایوسی ہوئی، جس کا مطلب ہزاروں پاکستانیوں اور برطانوی شہریوں کے لیے مسلسل مشکلات ہیں۔
یاد رہے کہ اس مہینے کے ابتدا میں ہی شیریں مزاری نے ڈاکٹرفیصل سلطان کی طرف سے برطانوی وزیر صحت ساجد جاوید کو لکھے گئے ایک خط میں برطانیہ کے فیصلے میں تضادات کو اجاگر کیا اور ایک نیا نقطہ نظر تجویز کیاتھا
Reply from Dr Faisal Sultan to UK Health Secretary in response to UK govt's "explanation" (C thread) on why Pak is on Red while India has moved to amber! The table exposes claims of UK govt that UK decision based on science & data! Clearly it has been a purely political decision! pic.twitter.com/5rKE8vFaAh
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) August 10, 2021