جھنڈا عظمت و رفعت کا نشان ہے اس کی بےتوقیری نہ کریں از قلم محمد عبداللہ
"چودہ اگست کے موقع پر چھوٹی جھنڈیاں لگانا”
چھوٹی جھنڈیوں کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایک پوسٹ کی تھی کہ اس کو لگانے سے گریز کریں تو اس پر کئی احباب نے میسجز کیے کہ جھنڈیاں لگانے میں کیا ایشو ہے تو دوستو ایشو کچھ نہیں ہے بس مسئلہ اتنا ہے کہ جھنڈا / پرچم کسی بھی قوم کی عظمت و رفعت کی علامت ہوتا ہے اور تبھی ہوتا ہے جب وہ کہیں گڑھا ہو، کہیں لگا ہو، ہواؤں میں فضاؤں میں لہرا رہا ہو.
لیکن وہی پرچم جا جھنڈا اگر زمین پر گرا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم وہ ملک اپنی عظمت کھوچکا ہے، کسی لشکر نے اس کو تاراج کردیا ہوا ہے. ویسے تو ہمارے ہاں ثقافتی یلغاریں ہی کافی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس دفعہ بھی چودہ اگست بارشوں کے سیزن میں آرہا ہے اور چودہ اگست سے اگلے ہی دن راستوں میں، گلیوں میں، نالیوں میں اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر جابجا سبز ہلالی پرچم بےبسی کی علامت بنا پڑا ہوتا ہے.
اس میں کوئی شک نہیں کہ بچپن کی یادوں کو تازہ کرنا اور نسل نو کو ان سے وابستہ کرنے کے لیے آٹے کی لیوی بنا کر جھنڈیاں لگانا کتنا دلچسپ اور محبوب عمل ہے. میرا اپنا بھی شمار انہی لوگوں میں ہوتا ہے جو جھنڈیاں لگانے کو ترجیح دیتے ہیں. گزشتہ سال میں نے اپنی بیٹی عشال جو اس وقت اڑھائی سال کی تھی اس کے ساتھ مل کر سبز ہلالی جھنڈیوں سے پورے گھر کو سجایا تھا اور پورے کام میں عشال کی خوشی اور جوش و خروش دیدنی تھا. ایک ایک جھنڈی کو بڑی عقیدت سے تھام کر، چوم کر مجھے دے رہی تھی اورکبھی ان کو لیوی لگاتی تھی .
یقیناً آپ اور آپ کے بچے بھی ایسا کرنا چاہتے ہوں گے اور آپ کو حق حاصل ہے آپ ضرور کریں لیکن کوشش کریں کہ آپ کی لگائی ہوئی اک بھی جھنڈی کہیں نیچے گرکر پاؤں تلے نہ روندی جائے، وہ باسکٹ کا حصہ نہ بنے، وہ کوڑے کے ڈھیروں پر نظر نہ آئے، وہ نالیوں کے گندے پانی میں بےیارومددگار پڑی نہ رہ جائے.کیونکہ یہ سبز ہلالی پرچم ہمارے پیارے پاکستان کی رفعت و عظمت کا پرچم ہے، اس پرچم کے لیے ہزاروں نہیں لاکھوں قربانیاں ہیں. اس کی سربلندی کے لیے اس کے محافظ اپنی زندگیوں کو وار دیتے ہیں لیکن اس کو گرنے نہیں دیتے..
تو آئیے ہم بھی عزم کریں کہ اس پرچم کی سربلندی کے لیے اپنی توانائیاں اور صلاحتییں صرف کریں گے اور اس سبز ہلالی پرچم کو کہیں جھکنے یا گرنے نہیں دیں گے.
سدا رہنا پاکستان زندہ باد (ان شاءاللہ)
محمد عبداللہ