ذہنی، فکری اور نظریاتی لحاظ سے زبوں حالی کا شکار، ادراک واحساسات سے عاری، مادیت پرستی و جاہ و نصب کی چاہ میں تمام اقدار وروایات کو ٹھکراتا، پاکستانی معاشرہ۔۔۔حصول زر کیلئے ہر جائز و ناجائز کا سہارا لیتے والدین اور اس حرام کمائی کو عیاشی میں اڑاتی نوجوان نسل، تعلیم کو کمائی کا ذریعہ بناتے اساتذہ اور تربیت سے ناآشنا طلباء، غرض آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
تعلیم و تربیت اور اخلاقی اقدار پاکستانی معاشرے میں ایک قصہ پارینہ بنتے جارہے۔ تمیزوتہذیب کی مذہبی و مشرقی روایات جن پر کبھی فخر کیا جاتا تھا آج ان کو کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ معاشرہ بری طرح سے اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ بےشعور لوگ تماش بین جبکہ باشعور لوگ بےبسی کی تصویر بنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ بہتان طرازی کو ہتھیار سمجھتے سیاستدان، اخلاقیات سے عاری میڈیا اور گالم گلوچ کو فیشن سمجھتی نوجوان نسل، غرض ایک طوفان بدتمیزی ہے جس نے پورے معاشرے کو یرغمال بنایا ہوا۔ کیا بچے، کیا بوڑھے کیا خواتین، ہر ایک نے تمیز کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ تنقید برائے تنقید ہم لوگوں کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ حسد، غیبت، جھوٹ، چغلی غرض ہر وہ اخلاقی برائی جس پر قرآن وسنت میں سخت سزا کی وعید ہے وہ آج ہمارے سماج میں معمولی بات سمجھی جاتی۔
پاکستانی عوام ہر بات میں مغرب کی مثال دیتے نہیں تھکتے لیکن جب بات اصولوں کی آئے تو ہم سے بڑا بےاصول کوئی نہیں۔ ایک طوفان بدتمیزی ہے جس کی ہر شعبہ زندگی پر یلغار ہے۔ سوشل میڈیا کے نام نہاد جنگجو اپنا مقصد پورا کرنے کیلئےہر حد پار کرتے نظر آتے۔ سمارٹ فون کی آڑ میں نہ کسی کی عزت محفوظ ہے نہ جان۔ بلاشبہ سوشل میڈیا کے مثبت کردار سے کسی کو انکار نہیں جس کی وجہ سے بڑے بڑے مجرم نہ صرف بینقاب ہوئے بلکہ ان کو سزائیں بھی ہوئیں۔ لیکن وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارا معاشرتی نظام دن بدن زبوں حالی کا شکار ہو رہا اور آنے والے کل کی بنیاد دروغ گوئی، فحاشی اور دشنام طرازی پر رکھی جارہی ہے۔ بلا تحقیق کے کی گئی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ اچھی بھلی زندگیوں کو جہنم بنانے کیلئے کافی ہے۔ بلیک میلنگ کا گھناؤنا کھیل اپنے عروج پر ہے۔
بقول شاعر!
انسان کی بلندی و پستی کو دیکھ کر
انساں کہاں کھڑا ہے ہمیں سوچنا پڑا
مجموعی طور پر یہ حالات اچھے خاصے انسان کو نفسیاتی مریض بنانے کیلئے کافی ہیں۔ سونے پر سہاگا! مایوسی اور ناامیدی زہر قاتل کی طرح معاشرے کی رگوں میں سرائیت کر چکی ہے۔
کوئی بھی ذی شعور انسان سوشل میڈیا کا تجزیہ کر کے بآسانی یہ نتیجہ اخذ کر سکتا کہ انتہا پسندی کا شکار، فہم و فراست سے عاری معاشرہ انتشار اور بگاڑ کی راہ پر گامزن ہے۔ تعلیم و آگاہی سے نابلد نوجوان نسل کو انٹرنیٹ کا بے دریغ استعمال جسمانی و ذہنی طور پر تباہ کررہا۔ عامیانہ اور محدود سوچ کے حامل افراد اپنا جاہلانہ نقظہ نظر ہر کس و ناکس پر تھوپتے نظر آتے۔ اخلاقیات اور علم و دانش کا جنازہ نکل چکا ہے جبکہ والدین، اساتذہ و اربابِ اختیار بے بسی سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات میں سے باشعور لوگ آگے آئیں اور منظم ہو کر اخلاقی پستی، مذہبی عدم برداشت، بےراہ روی جھوٹ اور فریب کی دلدل میں جکڑے زوال پذیر معاشرے کو باہر نکالنے کا عزم کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ "اللّٰہ تعالیٰ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو”(سورہٗ النحل۔90 )
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جب کوئی معاشرہ بداعمالیوں میں حد سے تجاوز کر جاتا ہےتو خداایک حد تک اُسے مہلت دیتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کر لے۔ لیکن اگر برائی کی روش برقرار رہے تو قانون قدرت حرکت میں آتا دنیا ہی میں ذلت اور پستی مقدر بن جاتی۔ہم مسلمانوں کیلئے دین اسلام ہی واحد نصب العین اور حضور اکرم ﷺ کی اسوہ حسنہ بہترین نمونہ ہے۔ اور اسی پر عمل کرکے ہم ایک مستحکم معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے اور دنیا و آخرت میں سرخروئی حاصل کر سکتے۔
: @once_says