بھارت:واٹس گروپ میں پاکستانی پرچم کی تصویر پوسٹ کرنیوالی طالبہ پربغاوت کا مقدمہ درج کرنیکا مطالبہ
بھارت میں حجاب تنازعے کی آڑ میں اقلیتوں کے خلاف مہم شدت اختیار کرتی جا رہی ہے، ریاست کرناٹکا کے ضلع شیوموگا میں حجاب کے معاملے پر کشیدگی برقرار ہے حالانکہ کرناٹک ہائی کورٹ کی فل بینچ نے حجاب کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے لیکن اس پر تناو اور ٹکرؤو جاری ہے یہاں تک کہ رواں ماہ کے شروع میں کرناٹک میں مسلمان طالبات کا سر ڈھکنے پر بھی تنازعہ ہوگیا تھا-
باغی ٹی وی : تفصیلات کے مطابق کرناٹک کے ضلع شیوموگا کے ایک کالج میں بدھ کے روز معاملہ اس وقت شدید طول پکڑ گیا جب حجاب کے موضوع پر بحث کے دوران ایک واٹس ایپ اسٹڈی گروپ میں ایک خاتون طالبہ نے پاکستانی جھنڈے کی تصویر پوسٹ کر دی۔
یوکرین میں 2500 سے زائد بھارتی طلباء کو بچانے والا پاکستانی
پاکستانی جھنڈے کی تصویر پوسٹ کرنے پر ہندو طلباء کی جانب سے طالبہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے اور اسے کالج سے نکالنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
ہندو طلباء نے منگل کو شیوموگا کے سہیادری سائنس کالج کے احاطے میں اس معاملے پر احتجاج بھی کیا مظاہرین نے یہ بھی الزام لگایا کہ کالج انتظامیہ نے اس بارے میں ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
بجرنگ دل کے کارکن ہرشا کے قتل کے بعد گزشتہ ماہ سے شیواموگا میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے اس قتل کے بعد بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف پُر تشدد واقعات دیکھنے میں آیےاور کئی دن تک کرفیو نافذ رہا کرفیو ہٹائے جانے کے بعد شیو موگا میں بی جے پی کے کارندوں پر بھی حملہ ہوا جس سے ایک بار پھر صورتحال کشیدہ ہوگئی ہے۔
قبل ازیں 6 مارچ کو منگلورو کے رکن اسمبلی یو ٹی قادر نے دکشن کنڑا کے ڈپٹی کمشنر سے حجاب تنازعہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو جمعہ کو منگلورو کے کار اسٹریٹ پر ڈاکٹر پی دیانند پائی، پی ستیش پائی گورنمنٹ فرسٹ گریڈ کالج کے طلبا کے درمیان جھگڑے کی وجہ بنا۔
انتہا پسند ہندوؤں کا دو مسلمان نوجوانوں پر تشدد،خنزیر کا گوشت کھلانے کی کوشش
منگلورو کے رکن اسمبلی یو ٹی قادر نے کہا تھا کہ تحقیقات سے یہ سچائی باہر آنی چاہیے کہ طلباء کو کون مشتعل کررہا ہے کالج کے پرنسپل کو اُن طلباء کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جنہوں نے کالج میں باحجاب طالبات سے جھگڑا کیا۔ طلباء کو جھگڑا کرنے نہیں بلکہ تعلیم حاصل کرنے کالج آنا چاہیے۔ قواعد و ضوابط سے متعلق تمام مسائل پر طلباء کو نہیں بلکہ کالج پرنسل اور انتظامیہ کوتبادلہ خیال کرکے فیصلہ کرنا چاہیے۔ حجاب تنازعہ پر طلباء کے جھگڑے پر ضلع انتظامیہ کیوں خاموش رہا؟ ہم چاہتے ہیں کہ طلباء کالجوں اور اسکولوں میں یکجہتی برقرار رکھیں۔“ عوام میں خوف اور نفرت پیدا کرنے والوں کے خلاف ضلع انتظامیہ اور پولیس کو سخت کارروائی کرنی چاہیے۔
چھٹی کے دن اسکول کے بچوں کے ساتھ تصویر،مودی سوشل میڈیا پر مذاق بن گئے
یاد رہے کہ حجاب پر عبوری پابندی کے سبب مسلم طالبات کو انتظامیہ نے حجاب کے بجائے ڈوپٹے سے سر ڈھکنے کی اجازت دیدی تھی مگر کار اسٹریٹ پر واقع دیانند پائی اور ستیش پائی گورنمنٹ کالجوں میں مسلم طالبات اپنے سر ڈھک کر امتحانات کے لئے حاضر ہونے پر بی جے پی کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی سے وابستہ طالب علموں نے ان مسلم طالبات کے خلاف جو ہنگامہ کھڑا کیا تھا اس کے نتیجہ میں بدامنی پیدا ہونے کے امکانات محسوس کرتے ہوئے ان کالجوں میں غیرمعینہ مدت کے لئے چھٹی کا اعلان کیا گیا ۔
یوکرین جنگ: روس کی خاموش حمایت پربورس جانسن سے بھارت کی مالی امداد روکنے کا مطالبہ
بھارتی میڈیا کا کہنا تھا کہ اڈپی ضلع سے شروع ہونے والے حجاب تنازعہ کو اس کالج کے پرنسپل نے حکمت کے ساتھ سنبھالا تھا اور مسلم طالبات کو اپنے سر ڈھک کر کالج میں حاضر ہونے اور لائبریری میں بیٹھ کر اپنی پڑھائی جاری رکھنے کی اجازت دی تھی ۔
حجابی طالبات کی ساتھی ہِبا شیخ کا کہنا تھا کہ پرنسپل نے انہیں باضابطہ حجاب کے بجائے ایک عام سے کپڑے سے سر ڈھانک کر امتحان ہال میں حاضر ہونے کی اجازت دی تھی ۔ مگر 4 مارچ کو جب وہ سب امتحان ہال میں جا کر بیٹھ گئیں تو اے بی وی پی سے تعلق رکھنے والے چار پانچ طالب علموں نے وہاں پہنچ کر تکرار شروع کی اور امتحان ہال سے باہر نکل جانے کو کہا ۔ اس سے بحث و مباحثہ اور زبانی تکرار شروع ہوگئی ۔ پھر کالج کے گیٹ پر متعلقہ لڑکوں اور مسلم طالبات کے درمیان زبانی جھڑپ ہوگئی جس کے بعد ماحول کشیدہ ہوگیا ۔ مگر پولیس نے موقع پر پہنچ کر حالات کو قابو میں کر لیا اس کے بعد مسلم طالبات نے مذکورہ طالب علموں کے خلاف بندر روڈ پولیس اسٹیشن میں باقاعدہ شکایت درج کروائی ۔
تاہم حالات کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ضلع ڈُپٹی کمشنر نے کالج کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کرنے اور امتحانات کو ملتوی کرنے کے احکام جاری کر دیئے تھے-