پاکستانی صحافت کے نشیب و فراز تحریر: سید لعل حسین بُخاری

شعبہ صحافت میں کسی وقت پرنٹ میڈیا کا دور دورہ تھا۔لوگ صبح ناشتے کے ساتھ اخبار کے منتظر رہتے تھے۔
جس دن اخبار لیٹ ہوجاتا،لوگوں کی بے چینی دیدنی ہوتی تھی،بار بار ہاکر کو گلی میں نکل کے دیکھا جاتا۔
جونہی دور سے ہاکر کی سائیکل کی گھنٹی بجتی اور اسکی تازہ اخبار،تازہ اخبار کی آواز آتی،
اخبار بینوں کے چہرے کھل اُٹھتے۔پھر ایک ہاتھ میں اخبار ہوتا اور دوسرے اخبار میں چاۓ کا کپ۔چاۓ کی چسکیوں کے ساتھ اخبار کی سرخیوں کا مزہ لیا جاتا۔
ان سب تجربات سے مجھے خود بھی گزرنے کا اتفاق ہوا،میرا صبح کا تجسس عام قارئین سے زیادہ ہوتا تھا،کیونکہ میں براہ راست ان اخبارات میں سے کچھ کے ساتھ بطور رپورٹر منسلک تھا،
مجھے انتظار ہوتا کہ کس اخبار میں میری کونسی خبر شائع ہوئ ہے۔اسے کس صفحے پر چھاپا گیا ہے؟
اس کتنے کالم میں جگہ دی گئی ہے،جس دن کوئ خبر فرنٹ پیج پر شائع ہوتی اس دن خوشی کی انتہا نہ رہتی۔صبح گھر سے نکلتے وقت اخبار کو بغل میں دبا کے نکلنا کبھی نہ بھولتا،مقصد دوستوں کو وہ خبر دکھانا ہوتا۔خبر کی اہمیت کے لحاظ سے مقامی،تحصیل ،ضلعی اور صوبائ انتظامیہ کے وضاحتی فون آنا شروع ہو جاتے۔
ان خبروں سے علاقے کا کوئ مسئلہ حل ہو جاتا تو لوگ جوق در جوق مبارکباد دینے چلے آتے۔
بطور رپورٹر کیرئر کا آغازمیں نے اسلام آباد سے شائع ہونے والے انگلش اخبار
PAKISTAN OBSERVER
سے کیا،بعد ازاں میں وقتا” فوقتا”روزنامہ خبریں،روزنامہ جنگ،روزنامہ اوصاف،روزنامہ دن،روزنامہ کائنات،اور اس وقت کی نمبر ون اردو نیوز ایجنسی
NNI
سے بھی منسلک رہا۔
اس نیوز ایجنسی کا ان دنوں طوطی بولتا تھا۔تمام بڑے اخبارات اسکی خبر لفٹ کرتے تھے۔
ان اخبارات میں لکھے گئےاداریوں اور کالموں سے حکومتیں ہل جایا کرتی تھیں۔
کالم نگاروں میں نزیر ناجی،سویرے سویرے،عبدالقادر حسن،ارشاد حقانی ،منو بھائ اور حسن نثار وغیرہ بڑے نام تھے۔بعد میں آنے والوں میں حامد میر،خوشنود علی خان اور جاوید چوہدری قابل زکر کالم نگار تھے۔حامد میر کے ساتھ اوصاف اور خوشنود علی خان کے ساتھ خبریں میں کام کرنے کا اتفاق ہوا۔
یہ سب اچھا لکھتے تھے،مگر نہ جانے پھر کیا ہوا کہ حامد میر اور جاوید چوہدری جیسے لوگ کیا سے کیا ہو گئے،
دیکھتے دیکھتے
ان لوگوں نے غیر جانبداری کا راستہ چھوڑ دیا،خاص طور پر حامد میر نے اپنی ہی فوج کے خلاف بدقسمتی سے مورچہ سنبھال لیا،جو انتہائ افسوسناک ہے،اسی ڈگر سے ان لوگوں نے اپنی مقبولیت بھی کھو دی۔
پرنٹ میڈیا کی اہمیت اب بھی ہے مگر پہلے والی بات نہیں رہی۔ الیکٹرونک میڈیا کے آنے سے ابھی کی خبر آپکو ابھی ملنے لگی ہے۔
کسی خبر کے لئے آپکو اگلے دن کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔
بلیک میلنگ اور زرد صحافت پرنٹ میڈیا میں بھی ہوتی تھی،ابھی الیکٹرونک میڈیا میں بھی موجود ہے۔
ہر چینلز کی اپنی ترجیحات ہیں،ہر کوئ اپنے مفادات دیکھتا ہے۔اپنے اشتہارات دیکھتا ہے،
سب سے پہلے اور ریٹننگ کی دوڑ میں جھوٹ اورسنسنی خیزی کا سہارا لیا جاتا ہے۔اپوزیشن پارٹیوں سے منتھلیاں لی جاتی ہیں۔ان کے ناجائز کو بھی جائز بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔
پہلے کی حکومتیں بھی اپنی کرپشن چھپانے کے لئے صحافیوں اور ٹی وی چینلز کو نوازتی تھیں۔
موجودہ حکومت اس گندی روٹین کو ختم کرنا چاہتی ہے،جس کے باعث اسکی راہ میں قدم قدم پر روڑے اٹکاۓ جاتے ہیں۔ہمارے ملک کی صحافت بھی سسلین مافیاز کا ہی حصہ ہے۔
میڈیا کا مثبت کردار اگر سامنے آۓ تو ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔
اس ستون کے مضبوط اور مثبت کرادار کا حامل ہونے سے باقی ریاستی ستون خود بخود درست ہو سکتے ہیں۔
مگر مستقبل قریب میں شائد ایسا ممکن نہ ہو سکے۔
اب یہ مجھ پر ہے،آپ پر ہے،ہم سب پر ہے کہ ہم اس میڈیا کے منفی پروپیکنڈے کا شکار ہو کر اپنے ملک کی جڑیں نہ کاٹیں۔
یہ ملک ہمارا ہے۔ہمارا سب کچھ اسی سے وابستہ ہے۔ہم نے اس کے استحکام کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دینی ہے۔
مضبوط،خوشحال اور مستحکم پاکستان ہی میں ہماری آنے والی نسلوں کی بقا ہے۔پاکستان زندہ باد #

@lalbukhari

Comments are closed.