فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے فرانس اور سعودی عرب ایک پیج پر
فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ مل کر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک مشترکہ کانفرنس کا انعقاد کریں گے۔ اس کانفرنس کا مقصد اسرائیل اور ممکنہ فلسطینی ریاست کے درمیان دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار کرنا ہے۔
صدر میکرون کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور وہ اس کانفرنس کی مشترکہ صدارت کریں گے، جو جون میں بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فرانسیسی صدر نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطین کا مسئلہ ایک طویل عرصے سے عالمی سطح پر توجہ کا مرکز رہا ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مزید سفارتی کوششیں کی جائیں۔صدر میکرون نے کہا کہ وہ اور سعودی ولی عہد فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے اپنے سفارتی کوششوں کو مزید بڑھائیں گے، تاکہ اس بحران کو حل کرنے کی راہ پر گامزن ہوا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کا مقصد عالمی شراکت داروں کو اس معاملے کے حل کی جانب متوجہ کرنا ہے۔
صحافیوں کی جانب سے سوال کیا گیا کہ آیا فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا؟ تو میکرون نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کریں گے جب یہ قدم دو طرفہ تسلیم کی تحریک کے آغاز کے طور پر اٹھایا جائے گا۔صدر میکرون نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ فرانس اس بات کا خواہاں ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کی جانب قدم بڑھایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس یورپی اور غیر یورپی اتحادیوں کو اس معاملے میں شامل کرنا چاہتا ہے جو اس دو ریاستی حل کی سمت میں قدم بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔
دوسری جانب سعودی عرب نے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی اور فلسطین کے مکمل آزاد ہونے تک اس کے ساتھ کسی بھی نوعیت کے تعلقات قائم نہیں کیے جا سکتے۔ یورپی یونین کے بعض نمائندوں نے فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ سفارتکاری کو سراہا ہے، تاہم بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے بغیر فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کرنا پیچیدہ مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔
فرانسیسی صدر کا یہ اعلان عالمی سیاست میں اہم تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر یہ کانفرنس کامیاب ہوتی ہے اور دونوں طرف سے مذاکرات کی راہ ہموار ہوتی ہے، تو یہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دیرینہ تنازعہ کے حل کی سمت میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔