تتہ پانی یا موت کا کنواں؟ تحریر:روشن دین دیامری

0
86

گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں ایک ایسا علاقہ جہاں سے کے کے ایچ ہمیشہ بلاک ہوتا ہے۔ اس روڈ پہ اب تک سیکٹروں لوگوں کے جان اور گاڑیاں چلی گی ہے ۔ اج ہم اس پہ بات کرتے کہ یہ روڈ اخر کیوں بلاک ہوتا ہے کیا قدرتی افت کی وجہ سے بلاک ہوتا ہے کچھ ادارے جان بوجھ کے اس روڈ کو اسے کنڈیشن میں رکھے ہوے ہیں ؟ یہ بہت سارے سوالات ہیں جن کے جواب باہر حال ہر گلگت بلتستانی شہری کو چاے۔جب اپ اسلام اباد سے جیسے ہی دیامر میں داخل ہوتے ہو تو سب سے پہلے چلاس شہر اتا ہے چلاس سے دو گھنٹے کے سفر گلگت کے طرف کرنے کے بعد تہ تہ پانی کا مقام اتا ہے۔اس علاقہ کا نام بھی اس لے تہ تہ پانی (تتو وی) کہا گیا کیونکہ یہاں گرم چشمے پوٹھتے ہیں۔یہاں کا پانی گرم ہونے کی وجہ یہاں پہ گندھک (سلفر) کثیر مقدار میں ہونا ہے ۔اسی پہاڑ میں سے ایک فالٹ گزرتا ہے جسے رائیکوٹ فالٹ کہتے ہیں ۔یہ ایک ایکٹیو فالٹ ہے مطلب یہ کہ یہاں کی زمین ہمیشہ ہلتی رہتی ہے۔جس کے وجہ سے ہمیشہ سلائڈنگ ہوتی ہے یہ تتہ پانی کا ایریا تقریبا پانچ کلومیڑ کے ایریا پر مشتمل ہیں جو کہ ہمیشہ سے اس پہاڑوں کٹاو کی وجہ سے بند رہتا ہے۔اس روڈ کو کلیر کرنے کے لےاین ایچ اے کے سب کنٹریکٹر ایف ڈبلو او نامی ادارے کے زمداری ہےکہ وہ کسی بھی قسم کے صورت حال میں روڈ کو صاف کرنے کے زمدار ہے اور روڈ بند ہونے کے صورت میں اوپن کرنا وغیرہ سب ان کے زمے ہے.اس روڈ کے متبادل ایک اور روڈ جو بلکل اس روڈ کے مخالف سمیت یعنی دریا سند ھ کے دوسرے طرف ہے وہ گوہراباد سے رائیکوٹ بریج کے لیفٹ بنک سے جوڑتا ہے جو کہ بلکل سیف روڈ ہے۔ اگر رائیکوٹ بٹسولئ سے پل کو دریا کے دوسرے طرف جوڑ دیا جاے اور وہاں ایک لینک روڈ جو پہلے سے موجود ہے کو میٹل کیا جاے اور اسے رائیکوٹ پل کے لیفٹ طرف جوڑ دیا جاے تو اس پریشانی کا مکمل حل ہوجاے گا۔مگر اس سے جو ادارے روزانہ روڈ کھولنے کے نام پہ کروڑوں پیسے کھا رہے ہیں ان کا روزی روٹی بن ہوجاے گی اور کرپشن کرنے کے مواقع ختم ہوجاے گے۔عوام گلگت بلتستان گزشتہ تیس سالوں سے ہزاروں دفع اس اشو پہ احتجاج کیا ہے لیکن این ایچ اے کو کوئی پرواع ہی نہیں ہے۔دوسرا اپشن اب چونکہ سی پیک کا روڈ بھی اسے طرف سے بننا ہے جو ڈرنگ پل تک ہے ڈرنگ پل سے رائیکوٹ پل اٹھ کلومیڑ ہے اگر اسی کے ساتھ مذید اٹھ کلومیٹر ایکسیٹنشن کیا جاے تو یہ اشو مکمل طور پہ حل ہوگا۔ہزاروں انسانوں کی قیمتی جانی ضیا ہونے سے بچیں گے

Leave a reply