انسان کے دنیا میں جتنے بھی رشتے ہیں اور جن جن رشتوں کے ساتھ انسان دنیا میں جڑا ہوا ہے ان تمام رشتوں اور ان تمام تعلقات میں ہر ایک انسان کا جو بنیادی رشتہ اور بنیادی تعلق ہے بلکہ جس رشتے اور تعلق کی وجہ سے ایک انسان دنیا میں آیا ہے وہ بنیادی رشتہ اور تعلق وہ انسان کے والدین کا رشتہ اور تعلق ہے ماں باپ دونوں ایک انسان کے لئے اس دنیا میں آنے کا وسیلہ ہیں اور انسان کا وہ زمانہ جس میں وہ سو فیصد مختاج ہوا کرتا ہے وہ زمانا جس میں وہ نہ کھا سکتا ہے نہ پی سکتا نہ چل سکتا ہے نہ پھر سکتا ہے نہ ہی اپنی مرضی سے گرمی اور سردی سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے یہ تمام نازک ترین اور حساس مراحل ایک انسان کے ساتھ اگر بخوبی عافیت کے ساتھ طے ہوتے ہیں تو وہ ایک انسان کے والدین اور ماں باپ کی برکت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
قرآن کریم فرقان حمید میں اکثر مقامات پر جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا تذکرہ اور حکم فرمایا وہاں اپنی عبادت کے متصل والدین کے حقوق کا حکم کیا بیسیوں مقامات پر قرآن کریم میں والدین کے حقوق کی بات کی گئی مفسرین فرماتے ہیں کہ والدین کے حقوق کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے اور ان کے حثیت کو اہمیت دینے کے لئے اللہ نے اپنی عبادت کے متصل والدین کے حقوق ادا کرنے کے بات کی ہے اور ویسے بھی ایک انسان پر جتنے بھی حقوق العباد لازم کیے گئے ہیں یاد رکھیں آن تمام میں بنیادی حق والدین کے حقوق ہیں انسان پر اپنے بہن بھائیوں اور رشتےداروں کے کچھ نہ کچھ حقوق ہیں لیکن ان تمام میں بنیادی حق وہ والدین کا حق ہے
اسی لئے جگہ جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین کے حقوق کو یاد دلاتے ہوئے جو ان کے اپنے بچوں پہ احسانات ہیں اللہ نے قرآن میں ان کی بھی نشاہدہی فرمائیں اور پھر والدین کے حقوق کی مکمل تشریح اور مکمل بیان اور تفصیل سرکارِ دوعالم ﷺ نے اپنے احادیثِ طیبہ میں ہمیں سکھائیں۔
سورت آسرا پندرہ پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ٫٫ تمہارے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ساتھ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اور اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو ان کے ساتھ احسان والا معاملہ کرو اگر تمہاری زندگی میں سے دونوں یا کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچ جائے یا کمزور ہو جائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے انہیں آف تک ہی نہیں کہنا اور ان کو جھڑکنا بھی نہیں ہے ان کے سات خندہ پیشانی کے ساتھ بات کرنی ہے اور جب بھی اپنے والدین کے سامنے بات کیا کرو تو ان کے ساتھ نرمی اور احسن طریقے سے بات کیا کرو اور ہمیشہ جو تمہارے رحمت اور شفقت اور رحم کے جو تمہارے پر ہیں وہ اپنے والدین پہ ڈالے رکھنا اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہا اپنے عمال اور قردار کے زریعے جہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کروگے نہ زبانی اپنے باتوں کے زریعے ان کو تکلیف پہنچاؤ گے نہ عمال کے زریعے اور پھر ساتھ ساتھ اللہ سے یہ دعا بھی کرو گے ک اے اللہ میرے والدین پہ اسی طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالہ تھا جس طرح میرے والدین نے میری تربیت کی تھی میری ضروریات کو پورا کیا تھا، اے میرے رب تو میرے والدین پہ رحم فرما، اس کا مطلب یہ ہے٫٫ اے اللہ جس وقت میں کمزور تھا اے اللہ میری کمزوری کا انہوں نے خیال رکھا تھا، اے اللہ اب میرے والدین کمزور ہیں اب مجھے توفیق دے کہ میں ان کا خیال رکھوں،، اور اللہ سے دعا کرنے کا معنیٰ بھی یہ ٫٫ اے اللہ تو میرے والدین پر رحم فرما؛؛ اے اللہ تو انہیں مختاج ہونے سے دور فرما۔
اسی لئے یاد رکھیں والدین کے حقوق کو حقوق العباد میں بنیادی حیثیت حاصل ہے، سرکارِ دوعالم ﷺ کے بارگاہ میں ایک صحابی آئے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میرے والدین کا مجھ پر کیا حق ہے تو آپ نے فرمایا تمہارے والدین تمہارے لئے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی ہیں ، صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ ہمارے والدین ہمارے لئے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی اس بات کی ہمیں سمجھ نہیں آئی، تو آپ نے ارشاد فرمایا٫ اگر تمہارے والدین تم سے خوش ہونگے ان کو راضی رکھو گے ان کے حقوق ادا کروگے تو یہ تمہارے لئے جنت میں جانے کا سبب ہو گا، اور اگر تم اپنے والدین کو ناراض رکھوگے اور آپ کے والدین ناراضگی کی حالت میں تم سے جدا ہو گئے تو یہی ان کی ناراضگی تمہارے لئے جہنم کا سبب ہوگا،، اسی لئے یاد رکھیں سرکارِ دوعالم ﷺ نے والدین کی رضامندی کو جنت کا سبب اور والدین کی ناراضگی کو جہنم کا سبب فرمایا، اگر والدین تم سے راضی ہیں تو اللہ تم سے راضی ہے اور اللہ کی رضا یہ تمام نعمتوں سے بڑھ کر یہاں تک کہ جنت سے بھی بڑھ کے نعمت ہے۔
مفسرین کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص سے والدین راضی ہیں اور اس کو سو فیصد پتہ ہو کہ ہاں میرے والدین مجھ سے راضی ہیں اور والدین بھی یہ اقرار کرے کہ ہاں ہم اپنے بیٹے سے بہت خوش ہیں اور راضی ہیں، تو مفسرین فرماتے ہیں یہ شخص قسم سے کہہ سکتا ہے کہ ہاں میرا رب بھی مجھ سے راضی ہیں، اگر ایک شخص جو روزے، حج حقوق العباد، میدان جہاد کا غازی بھی ہے لیکن والدین اس سے راضی نہیں تو پھر یاد رکھیں اس کا رب بھی اس سے راضی نہیں ہے، لیکن ایک شخص جو تہجد بھی نہیں پڑتا حقوق العباد بھی نہیں کرتا میدان جنگ کا غازی بھی نہیں کچھہ بھی نہیں کرتا لیکن اس کا باپ اس سے راضی ہے باپ اس نے راضی رکھا ہوا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ ہاں میرا رب مجھ سے راضی ہے والدین ایک انسان کے لئے بہت بڑی نعمت ہے، والدین کو راضث رکھنا بہت ہی آسان ہے اگر ایک انسان نے ساری عمر والدین کی نافرمانی کی ہو اور شرمندہ ہو کر وہ والدین کے سامنے ہو جائے تو والدین کے دل میں اللہ نے اولاد کے لئے جو محبت رکھی ہے تو وہ آخر کار اپنے اولاد کو معاف کر دیتے ہیں، اس لئے اپنے یہ یاد رکھیں اللہ نے جن کو والدین عطاء کیے ہیں اور وہ زندہ ہیں تو انکو راضی رکھیں ان کے حقوق کو پورا کریں، اسی لئے سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری ماں جنت کا سبب قریب تر اس لئے ہے باپ سے کہ جنت تمہاری ماں کے قدموں کے نیچے ہے ایک صحابی آئے یارسول اللہ ﷺ میں جہاد کے لئے جانا چاہتا ہوں ، آپ نے فرمایا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں تو صحابی نے فرمایا باب نہیں البتہ والدہ زندہ ہے تو آپ نے فرمایا جا، جا کر اپنے والدہ کی خدمت کر یہ تیرے لئے سب سے افضل جہاد ہے یادِ رکھیں جہاد کرنا ایک نیکی ہے لیکن سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا اگر آپ کے والدین زندہ ہیں تو اپنے والدین کی خدمت کریں یہ تمہارے لئے سب سے افضل نیکی ہے، جو انسان اپنے والدین کا فرمانبردار ہے اس کی اولاد کل اس کی فرمانبردار ہو گی۔ تو والدین یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اپنے والدین کو وقت دیں ان کو راضی کیجئے ان کی راضا تلاش کیجئے کہ ان کی راضا کس چیز میں ہے اور ان کی حقوق ادا کرنے کی کوشش کیجئے اپنے بچوں کو بھی سکھائے تاک اللہ ہم سے راضی ہو، اللہ تبارک و تعالٰی ہم سب کو سمجھنے کی توفیق ادا فرمائے اور اپنے والدین کا فرمانبردار بنائے۔ آمین
@ImTaimurKhan








