برصغیر پاک و ھند پر صلیبی سامراج کے قبضے کے تحت Colonialism کا بہت اثر رہا عام رعایا اور خواص کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا جو کہ قیام پاکستان اور ھندوستان کے بعد بھی جاری رہا اور آج بھی اسکے اثرات دونوں ممالک پر بدرجہ اتم موجود ہیں۔
برطانیہ کا رائج شدہ پارلیمانی جمہوری نظام ھند و پاک میں بھی اپنایا گیا جو کہ اپنی اچھی یا بری حالت میں چل رہا ہے ۔عوام کو اپنے شہروں میں مختلف جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈر کو ووٹ دینا ہوتا ہے جسکی بنیاد پر وہ پارلیمنٹ میں جاکر اپنی پارٹی کے شخص کو ووٹ کرکے لیڈر آف ہاوس منتخب کرتے ہیں اور وہی ملک کا وزیر اعظم بنتا ہے۔
یہ نظام پوری طرح ڈلیور نہیں کرپا رہا ۔
کیوں ؟ اسکی چند اہم وجوہات ہیں
1۔ ایک پارٹی کا سربراہ نیک ایماندار ہے لیکن اس شخص نے اپنا ٹکٹ کسی ایسے شخص کو دیا ہے جو چور ہے رسہ گیر اپنے علاقے میں مشہور ہے اور لوگوں پر اسکا خوف ہے تو وہ electable کہلاتا ہے اور وہ جیت جاتا ہے ۔ ایسے میں وہ شخص پارلیمنٹ میں پہنچ گیا اس نے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے عوام کو کچھ نہیں ملنا ۔
2۔ کوئی ایسا پارٹی لیڈر جو کرپٹ ہے چور ہے لیکن اسکا ٹکٹ ہولڈ نیک اور ایماندار ہے ۔ اب کیا اس ٹکٹ ہولڈر کو ووٹ دیا جائے جسکی وجہ سے کرپٹ شخص حکمران بن سکتا ہے ؟ ظاہر ہے یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔
3۔ اس نظام میں electable کافی اہمیت رکھتے ہیں جو الیکشن سے پہلے چلنے والی ہوا کا رخ دیکھ کر اسکے ساتھ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں اور جیتنے کے بعد ہمیشہ اقتدار میں رہ کر اپنا لوٹ مار تھانہ کلچر کرپشن رشوت کا بازار گرم رکھتے ہیں اور حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں ۔ انکو ہم electable مافیا کہہ سکتے ہیں۔
4۔ پاکستان جیسے ملک میں وڈیرہ شاہی اور اثر رسوخ والے امیر اور جدی پشتی سیاسی لوگوں کو زیادہ پذیرائی دی جاتی ہے۔ کوئی ایسا شخص جو کہ پڑھا لکھا ہو اور سماج میں کچھ بہتری لانے کے لیے عملی سیاست میں حصہ لینا چاہتا ہو تو اسکے لیے اول تو کسی پارٹی کے اندر جگہ بنانا بہت مشکل ہے اور اگر سفید پوش شخص ہے تو اور بھی زیادہ مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ سیاست کو وقت دے یا اپنے روزگار یا کاروبار کو ۔ ایسا شخص آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے تو جیتنا ناممکن ہے کیونکہ الیکشن جیتنے کے لیے ذاتی ووٹ کے ساتھ ساتھ پارٹی ووٹ بھی چاہیے ہوتا ہے۔
5۔ کسی ایسے شخص کو جوکہ صاف ستھری شخصیت والا کم پیسے والا ہو اسکو ٹکٹ مل جائے اور اسکے مقابلے میں کوئی بدمعاش غنڈہ کو ٹکٹ مل جائے تو لوگ ووٹ کسی شریف آدمی کی بجائے بدمعاش غنڈے کو دینا پسند کرتے ہیں کیونکہ اسکا علاقے میں خوف ہوتا ہے اور وہ تھانے میں پرچہ ، زمین پر قبضہ اور دیگر دھمکیوں کی وجہ سے لوگوں پر اثر رکھتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے ڈیروں پر کریمنل اور کرپٹ حضرات کا اکثر ڈیرہ رہتا ہے جو کہ اس سیاست دان کے لیے ہر اچھا برا کام بھی کرتے ہیں اور علاقے کا SHO بھی اس سے ملا ہوا ہوتا ہے۔ ایسی پریکٹس اکثر دیہاتی اور پسماندہ علاقوں میں بہت زیادہ کی جاتی ہے جوکہ پاکستان کا بیشتر حصہ ہے۔
6۔ الیکشن سے پہلے ووٹ خریدے جاتے ہیں فی شناختی کارڈ 1000 روپے کا ووٹ کا ٹرینڈ تو کافی علاقوں سے رپورٹ ہوا ہے ۔ الیکشن سے پہلے 10 سے 15 ہزار لوگ ایسے غریب لوگ جو کہ ووٹ بیچنا چاہتے ہیں ضرور مل جاتے ہیں جو کہ 1000 روپے نقد لیکر حلف دیتے ہیں کہ ہم ووٹ ڈالیں گے ۔ اب اس پری پول دھاندلی کا کوئی سدباب نہیں ہے۔
7 ۔ ملک کے اکثر بالخصوص دیہاتی اور پسماندہ علاقوں میں ہر محلے قصبے یونین کونسل پر ایک ایسا شخص موجود ہوتا ہے جو اس علاقے کا سو کالڈ بڑا ہوتا ہے وہ اس علاقے کی ہر خوشی غمی میں شریک رہتا ہے اور انکے تمام انتظامی و دیگر حکومتی مسائل میں انکا ساتھ دیتا رہتا ہے گلی محلے کے چھوٹے موٹے کاموں میں لوگوں کی ھیلپ کرتا رہتا ہے( مقامی MNA یا MPA کی مدد اور تعاون سے ) تو الیکشن دنوں میں وہ اپنے علاقے میں ٹکٹ ہولڈر سے پیسے لیکر جلسے بھی منعقد کرواتا ہے اور الیکشن دنوں میں ووٹ کے نام پر پیسہ اور مراعات بھی لیتا رہتا ہے۔ وہ شخص اس علاقے کی قسمت کافیصلہ کرتا ہے اور اکثر لوگ اسکے کہنے پر بھی ووٹ ڈالتے ہیں۔
8۔ ہمارے سامنے بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں کہ الیکشن دنوں میں امیر "ترین” لوگ کیسے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں یونین کونسل لیول پر اثر رکھنے والوں کو جو زیادہ بڑے ہوتے ہیں انکو 1300 CC گاڑیاں ، ان سے کم اثر رکھنے والوں کو 800 cc گاڑیاں اور جانفشانی سے کام کرنے والے لوگوں کو موٹرسائیکل تک گفٹ کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ زور لگا کر الیکشن لڑیں اور ووٹر کو جیسے تیسے منائیں اور الیکشن کے دن لوگوں کو نکال کر پولنگ بوتھ لیکر جائیں اور جب شام کو رزلٹ آئے تو اپنے ٹکٹ ہولڈر کو اپنے علاقے یا محلے یا پولنگ بوتھ کا رزلٹ دے سکیں اور اقتدار میں آنے کے بعد مزید قریب آکر مزید مزے کرسکیں ۔
9۔ بےشمار علاقے بالخصوص اندرون سندھ میں ایسے ہیں جنکا تعلیمی معیار اتنا ہے یا انکو آگہی اتنی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے صدر کا نام تک نہیں جانتے ہوتے اور الیکشن کے دن پر انکو گاڑیوں میں بھر بھر کر لے جایا جاتا ہے اور کہا جاتا کہ بس اس نشان پر ٹھپہ لگانا ہے اور وہ بغیر کسی چوں چراں کے ٹھپہ لگا کر آتے ہیں ۔ اور ساری زندگی نعرے لگاتے گزر جاتی ہے کہ فلاں زندہ ہے اور فلاں جیوے۔ سالہا سال سے یہ پریکٹس جاری ہے اور انکی ابتر حالت کبھی بھی نہیں بدلی نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ علاج کی سہولیات اور نہ ہی بچوں کو سکول مہیا ہیں۔
10۔ ہمارے پارلیمانی نظام سے فائدہ اٹھانے والے حکمرانوں نے ایک بات بہت پہلے سے سمجھ لی تھی کہ پاکستان کو خواندگی اور آگہی کی طرف نہیں لیکر جانا ۔ عوام کی جہالت اور کم علمی ہی انکو لیڈر بنانے میں سب کلیدی کردار ادا کرے گی ۔ جو شناختی کارڈ کے عوض ووٹ بیچ سکیں ، جو فقط بریانی کی پلیٹ پر ووٹ ڈال سکیں، جو کرپٹ حکمرانوں کے بارے میں یہ رائے رکھیں کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو یے ، جو خوف اور دہشت کی وجہ سے ووٹ دے سکیں ، جو علاقے پر اثر رسوخ رکھنے کی وجہ سے ووٹ دے سکیں ایسے لوگ یقینا” پڑھے لکھے تعلیم یافتہ نہیں ہوسکتے ۔ اسلیے جان بوجھ کر لوگوں کو ان پڑھ رکھا جاتا رہا تاکہ انکے اقتدار کو طول مل سکے۔
11۔ ہر 3 سال بعد جب سینیٹ کا الیکشن آتا ہے تو یہی MNA اور MPA اپنی بولی لگواتے ہیں، اپنے ضمیروں کا سودا کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو زیادہ پیسے خرچ کرتا ہے اور زیادہ اچھی بولی لگاتا ہے ۔
پاکستان کو صدارتی نظام زیادہ سوٹ کرتا ہے جس میں عوام کو اپنے شہر کے کرپٹ یا ایماندار شخص کو ووٹ دیکر اپنے ملک کی قسمت کا فیصلہ انکے ہاتھ میں نہیں دینا ہوتا جو پارلیمنٹ میں جاکر اپنا ووٹ بیچ کر نجانے کس کو ہم پر مسلط کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے عوام براہ راست لیڈر کا انتخاب کرتی ہے جو کہ اصل جمہوریت ہے اور بقول مرحوم مولانا ڈاکٹر اسرار احمد صدارتی نظام اسلامی شرعی نظام سے قریب تر اور پارلیمانی نظام سے بہتر ہے ایسا شخص جسکو عوام نے ڈائریکٹ ووٹ دیکر منتخب کیا وہی شخص عوام کی اصل نمائندگی کا حقدار ہے اور وہی اس مملکت خداداد اور عوام کے لیے بہتر کام کرسکتا ہے۔ مفلوج و ناکارہ پارلیمانی نظام کے تحت بہتری کی گنجائش بہت کم ہے اس نظام کو کرپٹ ایلیٹ جو کہ پیسے کی بدولت اقتدار کے ایوانوں کا حصہ بنتی ہے اپنے کاروبار اپنے خاندان کے لیے کام کرتی ہے ۔ کتنے ہی سیاستدان ایسے آئے جو اقتدار میں آنے سے پہلے تو کم امیر تھے اقتدار میں آنے کے بعد سپر امیر ہوگئے کاروبار جائداد گاڑیاں اتنی زیادہ بنا لیں بیرون ملک جائیداد بنا لی بچے ملک سے باہر رہنے اور پڑھنے لگے۔ بڑے بڑے شوگر و انڈسٹری مافیا ، رئیل سٹیٹ مافیا ،قبضہ گروپ مافیا پیسے کی وجہ سے الیکشن جیت کر پارلیمان میں آئے اور اپنے کرپشن کا دفاع بھی کیا اور مزید فائدہ اور مراعات بھی حاصل کیں۔
پاکستان میں پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام ہونا چاہئے ۔
@EyeMKhokhar