پچاس سال قبل جب پاکستان دو لخت ہوا اوربنگلہ دیش معرض وجود میں آیا تو اس کا
شمار دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتاتھا۔ قدرتی آفات اور آبادی کے بوجھ
تلے دبے، کم شرحِ خواندگی، غربت، محدود قدرتی وسائل اور گنتی کی چند صنعتوں
والے اسخطہ کے بارے میں اقوام عالم کو یہ یقین تھا کہ پاکستان سے الگ ہوکر یہ
اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ پچھلے ۵۰؍ برسوں میںاس نے بہت سے نشیب و
فراز دیکھے اور بے شمار مصائب کا سامنا کیا۔ 1974ء کی قحط سالی، 1991ء کا
سمندری طوفان، عوامیبغاوت اور فوجی کارروائی نے اس کے مسائل میں بے پناہ اضافہ
کیا۔ لیکن نہ صرف اس نے اپنا وجود اور پہچان برقرار رکھی بلکہتیزی سے ترقی کی
راہ پر گامزن ہوا۔ عالمی ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ جلد ہی یہ ملک دنیا کی
تیز رفتار ترین معیشت بن جائیگا۔بنگلہ دیش اور بنگلہ دیشی کرنسی ٹکے کی حیثیت
نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن آج 50 سال بعد نہ صرف بنگلہ دیش ترقی کی راہ میں
پاکستان اور بھارت دونوں سے آگے ہے بلکہ اب ایک بنگالی ٹکہ پاکستانی 1.66روپے
کے برابر ہے۔ ڈالر کی قیمت پاکستانی 170 روپے جبکہ بنگلہ دیش میں 84 ٹکہ ہے۔
وہ بنگلہ دیش جس کا نام ذہن میں آتے ہی قحط سالی، غربت، بیماری اور بدحالی
ذہن میں آتی تھی آج ترقی پزیر ممالک کیلئے رولماڈل بن چکا ہے۔ غربت کا خاتمہ
کرنے، صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے، شرح خواندگی بڑھانے اور عورتوں کو
خودمختار بنانے میںبنگلہ دیش نے جو کارنامہ انجام دیا ہے تمام دنیا اس کی معترف
ہے۔
شیخ حسینہ واجد کے ۱۱؍ سالہ دور اقتدار میں بنگلہ دیش نے حیرت انگیز ترقی کی۔
مفلسی اور قحط سالی کا شکار ملک غذائی اجناس کیپیداوار میں کافی حد تک خود کفیل
ہوگیا۔
بنگلہ دیش اپنی برآمدات سے اربوں ڈالر کما رہا ہے۔ کورونا وائرس کے دوران جہاں
بہت سے ممالک شدید معاشی بحران کا شکار ہورہے تھے، بنگلہ دیش میں جی ڈی پی کی
شرح میں اضافہ ہو رہا تھا۔
فی کس آمدنی 2017 ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ غربت کی شرح 20 اعشاریہ پانچ تک ہو کر
رہ گئی ہے۔اس وقت کے اعداد و شمار کےمطابق سنہ 2035 تک بنگلہ دیش دنیا کی 25ویں
بڑی معیشت بن جائے گا۔
اگر بنگلہ دیش کا مقابلہ پاکستان سے کیا جائے تو بنگلہ دیش پر آبادی کا دباؤ
ہم سے چار گنا زیادہ ہے۔ اور اسی طرح رقبے اور وسائلکے لحاظ سے وہ ہم سے چار
گنا کم ہے ۔
فی کس آمدنی اور سالانہ شرح ترقی میں وہ ہمیں پہلے ہی بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
بنگلہ دیش کی سالانہ برآمدات41 ارب ڈالر جبکہپاکستان کی 25 ارب ڈالر سے کم ہیں،
اور بنگلہ دیش کی درامدات 43 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی درامدات 56 ارب ڈالر ہو
چکی ہیں۔بنگلہ دیش پر کل غیر ملکی قرضہ اس وقت 35 ارب ڈالر کے قریب جبکہ
پاکستان میں 87 ارب ڈالر ہے۔ بنگلہ دیش میں بے روزگاریکی شرح %4 جبکہ پاکستان
میں بے روزگاری %6 کے قریب ہے۔ بنگلہ دیش کی %33 آبادی صنعتوں سے منسلک ہو چکی
ہے اور پاکستان کی صرف %20 صنعتوں سے وابستہ ہے۔ اسی طرح تعلیمی اعتبار سے بھی
ہم بنگلہ دیش سے بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ عالمیبینک کے مطابق ان کی شرح خواندگی
74 فیصد جبکہ ہماری 59 فیصد ہے۔
کپاس درآمد کرنے کے باوجود بنگلہ دیش چین کے بعد جنوبی ایشیا کا دوسرا سب سے
بڑا گارمنٹس کا برآمد کار بن چکا ہے، جبکہ کپاسکے معاملے میں خود کفیل ہونے کے
باوجود ہماری برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بنگلہ دیش میں گارمنٹس کی تقریباً 5 ہزار صنعتیں ہیں۔ یہ شعبہ لاکھوں کی تعداد
میں عوام کو روزگار مہیا کرتا ہے، جن میں سے 80 فیصدخواتین ہوتی ہیں۔
معاشی اعتبار سے بنگلہ دیش بہت جلد ایشین ٹائیگر بننے جا رہا ہے۔ انہوں نے
چھوٹے قرضوں پر مبنی منصوبوں کے ذریعے اپنیخواتین کو خودمختار بنانے پر دھیان
دیا اور تعلیم پر توجہ مرکوز رکھی۔
بنگلہ دیش میں صحت اور خوراک کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے شعبہ صحت اور
غیر سرکاری تنظیموں نے پسماندہ علاقوں کومالی امداد پہنچانے کی کوششیں بھی کیں۔
Imran Afzal Raja is a freelance Journalist, columnist & photographer. He
has been writing for different forums. His major areas of interest are
Tourism, Pak Afro Relations and Political Affairs. Twitter: @ImranARaja