"ویب ٹی وی ، یوٹیوب چینل بھی پیمرا کی تحویل میں ہونے چائیں "ایسا نہیں کہا ، مشاورت کے لیے رائے طلب کی ہے ، پیمرا کے متضاد بیانات

0
75

لاہور:پاکستان میں آزاد میڈیا اورسوشل میڈیا کا گلا دبانے کی پیمرا کی کوششوں کا انکشاف،اطلاعات کےمطابق پیمرا ویب ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بھی قابو پانے کی تیاریوں میں ہیں‌، ادھرپیمرا کی طرف سے متضاد بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے،

پیمرا نے 24 گھنٹوں میں متضاد بیانات دے کرصارفین کے شکوک وشبہات کویقین میں بدلنا شروع کردیا ہے، باغی ٹی وی کےمطابق پہلے پیمرا کی طرف سے بیان جاری ہوا کہ "ویب ٹی وی ، یوٹیوب چینل بھی پیمرا کی تحویل میں ہونے چائیں”پھر کہا گیا کہ نہیں ایسا نہیں کہا ، مشاورت کے لیے رائے طلب کی ہے

باغی ٹی وی کےمطابق سوشل میڈیا کے دومعروف چینلوں ویب ٹی وی اوریوٹیوب چینل کوپیمرا کی تحویل میں لینے کی منصوبہ بندی فواد چوہدری کے دور میں کی گئی .یہ بھی معلوم ہوا ہےکہ اب بھی اس سارے معاملے کے پیچھے فواد چوہدری کی شرارتیں اورسازشیں ہیں ،

 

ادھراطلاعات کےمطابق سوشل میڈیا کوپیمرا کی تحویل کی خبروں کے بعد اکثر ملکی و غیر ملکی ادارے اور تنظیمیں پیمرا کی ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی کی سروسز کو ریگولیٹ کرنے کی تجویز کی سختی سے مخالفت کر رہی ہیں اور اسے آزادی رائے اور میڈیا کی آزادی پر مزید قدغن لگانے کے مترادف قرار دیتی ہیں۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے ملک میں انٹرنیٹ پر موجود ویب ٹی وی اور اوور دا ٹاپ (او ٹی ٹی) سروسز، مثلاً نیٹ فلکس، ہُولُو اور ایمازون پرائم، کو اپنے دائرہ کار میں لانے کے غرض سے عوامی مشاورتی مہم کا آغاز کیا ہے۔

اس سلسلے میں پیمرا نے ایک کنسلٹیشن پیپر تیار کیا ہے جس کے ذریعے پاکستان کے شہریوں، حکومتی و غیر حکومتی سمیت نجی اداروں، سیاسی پارٹیوں، سیاست دانوں اور اراکین پارلیمان سے مشورہ لیا جا رہا ہے۔

پیمرا کے اس اقدام کے بعد ملک بھر میں یہ موضوع زیر بحث ہے۔ اکثر ملکی و غیر ملکی ادارے اور تنظیمیں پیمرا کی ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی سروسز کو ریگولیٹ کرنے کی تجویز کی سختی سے مخالفت کر رہی ہیں اور اسے آزادی رائے اور میڈیا کی آزادی پر مزید قدغن لگانے کے مترادف قرار دیتی ہیں۔

رواں عشرے کے دوران انٹرنیٹ پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے ویب ٹی وی چینلز اور او ٹی ٹی کی بھر مار دیکھنے میں آئی ہے۔یادرہےکہ پاکستان میں‌اکثر کھلاڑی، فنکار، صحافی اور دوسرے پروفیشنلز اپنے چینلز چلا رہے ہیں۔صرف یہ طبقہ ہی نہیں بلکہ ہرکوئی بغیر کسی قید کے عام لوگ بھی انٹرنیٹ کی مدد سے مختلف موضوعات پر ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کر رہے ہیں۔

باغی ٹی وی کےمطابق ویب ٹی وی اوریوٹیوب چینل نہ صرف صحافتی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں بلکہ تعلیمی اورتربیتی مقاصد کےلیے بھی استعمال میں آتے ہیں ، اس کے علاوہ پاکستان میں زیادہ دیکھے جانے والے ویب ٹیلی ویژنز پر کھانا پکانے، طنز و مزاح، سیاسی تبصرے اور سیاحت جیسے موضوعات پر ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں۔ملک کے تقریباً تمام نجی ٹی وی چینلز بھی اپنی نشریات انٹرنیٹ پر اپنے ویب ٹی وی کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔

پیمرا کی طرف سے جودھیرے دھیرے کنسلٹنسی کے نام پرکچھ پیپرز سوشل میڈیا اوردیگرذرائع کے ذریعے پیش کیئے جارہے ہیں‌، اس کا محتاط خلاصہ کلام کچھ اس طرح ہے ،

 

 

file:///C:/Users/Talha%20Amin%20Tahir/Downloads/Regulating_the_Web_TV_OTT_CP.pdf

پیمرہ پلان آف کنٹرول ویب ٹی وی اینڈ یوٹیوب چینل ؟

کنسلٹیشن پیپر میں ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی کی پاکستان میں شروعات اور موجودہ وقت میں نوعیت، کوریج اور اہمیت پر بحث کے علاوہ انہیں کنٹرول کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔پیمرا کی طرف سے اس مشاورتی پھندے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ کنسلٹیشن پیپر میں تسلیم کیا گیا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی ریاستی کنٹرول سے آزاد ہیں۔

تاہم اس سلسلے میں چند ایک ملکوں میں ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی پر جزوی پابندیوں کا ذکر کر کے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انٹرنیٹ پر دستیاب ان دو خدمات کا ریاستی کنٹرول میں ہونا کیوں اور کتنا ضروری ہے۔دوسری طرف یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہےکہ اس سے بہتری آئے گی

پیمرا کی طرف سے جاری کیئے گئے 25 صفحات پرمشتمل کنسلٹیشن پیپرز میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی پیمرا کے کنٹرول میں نہ ہونے کے باعث ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہیں اور اکثر میڈیا کے لیے موجود ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتے ہیں۔

انٹرنیٹ پر موجود ان دو ذرائع ابلاغ پر ریاستی کنٹرول کی ضرورت کے حق میں مزید دلائل دیتے ہوئے کنسلٹیشن پیپر میں بیان کیا گیا ہے کہ ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی اشتہارات بھی حاصل کرتے ہیں جو پیمرا کے کنٹرول میں چلنے والے ٹیلی ویژن چینلز کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔

پیمرا نے ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی پر بھاری فیسیں عائد کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے اور اس سلسلے میں او ٹی ٹی سروسز اور نان نیوز ویب ٹی وی کے لیے پچاس پچاس لاکھ اور نیوز و کرنٹ افئیرز ویب ٹی وی کے لیے ایک کروڑ روپے لائسنس فیس تجویز کی گئی ہے جب کہ سالانہ فیس اس کے علاوہ ہوگی۔کنسلٹیشن پیپر میں ایک سوال نامہ بھی شامل کیا گیا ہے جس کے جوابات پاکستانی شہریوں اور اداروں سے 14 فروری تک طلب کیے گیے ہیں۔

دوسری طرف پیمرہ کے اس طرزعمل کے خلاف دنیا بھر میں آواز بلند ہونا شروع ہوگئی ہے، اطلاعات کےمطابق پاکستان سمیت دنیا بھرمیں جوصارف سوشل میڈیا سے وابستہ ہیں انہوں نے پیمرا کے اس کھیل کی کھل کر مخالفت کی ہے یہی وجہ ہےکہ ابھی چند دن ہوئے ہیں پیمرا کی دھیرے دھیرے کنسلٹنسی کے ذریعے ویب ٹی ٹی اور یو ٹیوب چینل کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو لیکن اس کے باوجود جس کسی کو اس کی خبر ملی ہے اس نے سخت ردعمل دکھا یا ہے، پیمرا کے کنسلٹیشن پیپر کے خلاف ملک اور بیرون ملک سخت ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔

صحافتی تنظیموں، سول سوسائٹی، میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ملکی و بین الاقوامی تنظیموں نے پیمرا کی اس تجویز کو رد کرتے ہوئے ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی پر ریاستی کنٹرول کو ہر طرح سے غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیا ہے۔

پیمرا کی اس تجویز کی مخالفت کرنے والوں میں صحافی، وکلا، میڈیا کارکنان، انسانی حقوق کارکنان، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت، ڈیجیٹل رائٹس اور انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والے غیر حکومتی ادارے شامل ہیں۔

پاکستانی سول سوسائٹی کی جن تنظیموں نے پیمرا کی اس تجویز کی مخالفت کی ہے ان میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والا فرانسیسی ادارہ رپورٹرز سانز فرنٹیئرز (آر ایس ایف)، ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن، فریڈم نیٹ ورک، انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سمیت ہزاروں ادارے بھی شامل ہیں۔

ان تنظیموں اور اداروں نے پیمرا کی ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کی تجویز کے خلاف عوامی مشاورت شروع کی ہے جس میں پاکستانی عوام میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود ان دو خدمات کا ریاستی کنٹرول سے آزاد ہونا کیوں کر ضروری ہے۔

پیمرہ کی طرف سے اس جال میں پھنسانے کی مشاورتی اورسازشی کوششوں پرسخت ردعمل پہلے سے زیادہ آنا شروع ہو گیا ہے، ادھر اطلاعات کےمطابق ایک بیان میں ان تنظیموں اور اداروں نے پیمرا کی اس تجویز پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزاد میڈیا پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔صارفین کی طرف سے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہےکہ کہ اس اقدام کا واضح مقصد نظر آتا ہے کہ حکومت ہمارے ڈیجیٹل حقوق اور سائبر سپیس کو ہائی جیک کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا مارکیٹ کو مسخ اور محدود کرنے کی مذموم کوششیں کر رہی ہے۔

بیان میں پاکستان کی عوام سے استدعا کی گئی کہ پیمرا کے سوال نامے کا بالکل بھی جواب جمع نہ کروایا جائے کیوں کہ ایسا کرنے سے پیمرا کے اس مشاورتی عمل کو قانونی حیثیت حاصل ہو گی اور انہیں ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی کو ریگولیٹ کرنے کے لیے جواز ہاتھ آجائے گا۔

ذرائع کےمطابق یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پیمرا نے عوام کے لیے تو ایک قسم کا کنسلٹیشن پیپر جاری کیا ہے جب کہ اراکین پارلیمان اور پارلیمانی کمیٹیوں کو الگ تجاویز پیش کی ہیں جو زیادہ سخت اور بے رحمانہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت حکومتی اوراپوزیشن اراکین کی طرف سے خاموشی دکھائی جارہی ہے ،اوراگرایک آدھا بیان آتا بھی ہےتوصرف سیاست کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا

Leave a reply