کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں ایک آدمی کو ایک عقاب کا چھوٹا سا بچہ مل گیا وہ اسے اٹھا کر اپنے گھر لے آیا اور گھر آ کر اس نے عقاب کے بچے کو گھر میں موجود اپنی مرغیوں اور چوزوں کے ساتھ چھوڑ دیا اب جو چیزیں مرغیاں کھائیں عقاب بھی وہی کھائے جس طرح مرغیاں چلیں عقاب بھی ویسے ہی چلے جیسا کہ سب جانتے ہیں مرغے مرغیاں پر ہونے کے باوجود زیادہ تر اڑتے نہیں ہیں اگر کبھی اڑتے بھی ہیں تو دیوار کی حد تک اب عقاب جو کہ انہی میں پل بڑھ رہا تھا اسکی پرورش بھی ویسے ہی ہو رہی تھی جیسے باقی کے مرغے اور مرغیوں کی ہو رہی تھی جیسے جیسے دن گزرتے گئے وہ سب بڑے ہوتے گئے اب وہ عقاب بھی خود کو مرغا ہی سمجھنے لگا
لیکن رنگ نسل اور جسامت کو لیکر احساس کمتری کا شکاربھی کہ باقی سارے مرغے اور مرغیاں ایک جیسے ہیں انکی بولی اور شکل صورت بھی ایک جیسی ایک میں ہی ہوں جو ان جیسا نہیں ہوں.
اس بات کا مرغے بھی خوب فائدہ اٹھا رہے تھے جیسے ہی سامنے کوئی دانہ دنکا آتا وہ اس پہ رعب ڈال کر خود کھا لیتے جو بچ جاتا اس میں سے عقاب کو ملتا اب جو مالک تھا وہ یہ سب کافی دنوں سے دیکھ رہا تھا اور دیکھ کر حیران بھی کہ یہ عقاب کو کیا ہو گیا یہ تو ایسے نہیں ہوتےسہمے سہمے سے اور یہ اڑتا بھی نہیں ہے شکار وغیرہ کرنا تو بہت دور کی بات اب وہ آدمی روزانہ عقاب کو اٹھائے اور اسے بولے کہ بھائی تو عقاب ہے زمین پہ چلنا تیرا کام نہیں تو آسمانوں میں اڑان بھر یہ کہہ کر وہ اسے ہوا میں پھینک دے لیکن اگلے ہی پل عقاب صاحب دوبارہ زمین پر ملیں وہ آدمی اسے پھر اٹھائے اور دوبارہ ہوا میں پھینک دے لیکن عقاب پر نا کھولے اور پھر زمین پرکافی دن ایسے ہی چلتا رہا لیکن مجال ہے کہ عقاب نے ایک بار بھی اڑان بھری ہوآدمی نے کہا کہ اب اگر تو نا اڑا تو میں تمہیں پہاڑ سے گرا آوں گا یہ کہہ کر اس نے پھر عقاب کو ہوا میں اچھالا لیکن اس بار بھی عقاب نہیں اڑا اب آدمی اسے لیکر پہاڑ کی چوٹی پہ پہنچ گیا اورعقاب سے کہا کہ دیکھ بھائی یہ تیرے پاس آخری موقع ہے .
اگرتم نے پہلے کی طرح بزدلی دکھائی تو کچھ ہی دیر میں ہزاروں فٹ نیچے کسی پتھر پہ پڑا تڑپ رہا ہوگا اور اگر ابار تم نے دلیری دکھا دی بتو پرندوں کا بادشاہ کہلائے گا یہ بول کر آدمی نے عقاب کو پہاڑ کی چوٹی سے نیچے گرا دیا اب جیسے جیسے زمین قریب آتی گئی یقینی موت کو دیکھ عقاب نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں اور اس آدمی کو بددعائیں دینا شروع کر دیں کہ کتنا ظلم کیا اس نے میرے ساتھ اور پھر اچانک سے اسے خیال آیا کہ یار یہ آدمی اتنے دنوں سے بول رہا تھا کہ تو عقاب ہے تیرا کام چلنا نہیں آسمانوں میں اڑنا ہے آج اسکی مان کر دیکھ ہی لوں
ورنہ موت تو وہ ہے جو ابھی آئی کی آئی ہے یہی سوچ کر اس نے زندگی میں پہلی بار ہمت کر کے اپنے پروں کو اڑنے کے لئے کھولا تو اسے احساس ہوا کہ میرے پر عام پر نہیں بلکہ یہ وہ پر ہیں جو مجھے پر وقار ، با رعب اور وہ اونچی اڑان دیں گے کہ میں آسمانوں کا سینہ چیرتے ہوئے پرواز کروں گا ایسی پرواز جو مجھے پرندوں کا بادشاہ بنائے گی اس نے اڑنا شروع کیا کیوں کہ اب وہ جان چکا تھا کہ وہ کیا اب وہ جان چکا تھا کہ اس میں قوت پرواز ہے اب وہ جان چکا تھا کہ اس کے لئے اڑنا ممکن ہے.
تو دوستو یہی کچھ ہمارے لئے ہے ہو سکتا ہے ہم پلے بڑھے ہی ایسے ماحول میں ہوں ہمیں کبھی ایسا موقع ہی نا ملا ہو کہ ہم خود کو جان سکیں ہمیں کبھی ایسا پلیٹ فارم ہی نا ملا ہو کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو منوا سکیں ہم رنگ نسل اور قومیت میں ہی دب کر رہ گئے ہوں آگے بڑھنے کا خیال ہی دل سے نکال دیا ہوہم نے کبھی اونچا اڑنے کے لئے اپنے ہر ہی نا کھولے ہوں اور احساس کمتری کا شکار ہو کر زندگی گزار رہے ہوں ہم اکثر کئی کامیاب لوگوں کو دیکھتے ہیں یا کئی کامیاب لوگوں کے بارے پڑھتے ہیں وہ کوئی آسمان سے نہیں اترے ہوتے وہ بھی ہم میں سے ہی ہیں لیکن انہوں نے اپنی سوچ کو محدود نہیں رکھا انہوں نے اپنی منزل کو آسمان جانا اور حاصل کرنے کے لئے اپنے پروں کو حرکت دی تو کیوں نا ہمیں بھی ایک بار اس رنگ نسل کی سوچ سے آگے احساس کمتری سے نکل کر اپنے اندر وہ عقابی روح بیدار کرنے کی کوشش تو کرنی چاہئے اپنے اندر موجود ان صلاحیتوں کو استعمال تو کرنا چاہئے جو ہمیں دوسروں کے لئے مثال بنا دے ہمیں ہمارے وہ پر کھولنے تو چاہئے جو ہمیں پرواز کی ان بلندیوں تک لیکر جائے جس کے لئے ہم پیدا ہوئے ہیں یقین کریں ہم میں وہ سب کرنے کی قوت حوصلہ صلاحیت موجود ہے جس کا دوسرے فقط تصور ہی کر سکتے ہیں بس دیر ہے تو اپنی اس خاصیت کو ڈھونڈ کر اس پہ عمل کرنے کی.
@pm_22








