پیٹرولیم مصنوعات میں‌ مصنوعی بحران کی انکوائری رپورٹ وزیراعظم کو پیش. بڑے بڑے پگڑی والوں کے کرتوت عیاں

باغی ٹی وی : پاکستان میں رواں سال جون میں پیٹرولیم مصنوعات کے مصنوعی بحران سے متعلق انکوائری رپورٹ وزیرِ اعظم کو جمع کرا دی گئی ہے جس میں آئل کمپنیاں، اوگرا اور پیٹرولیم ڈویژن کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

انکوائری کمیشن نے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو تحلیل کرنے جب کہ چیئرمین اوگرا، سیکریٹری پیٹرولیم ڈویژن اور ڈی جی آئل کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔

رواں سال جون، جولائی میں ملک میں پیٹرول کی ‘مصنوعی قلت’ پیدا ہو گئی تھی۔ وفاقی حکومت نے پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث کمپنیوں کا پتا لگانے کے لیے انکوائری کمیشن بنایا تھا۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ابوبکر خدا بخش کی سربراہی میں قائم کمیشن میں تفتیشی ایجنسیوں، اوگرا کے سابق اراکین اور اٹارنی جنرل سمیت دیگر ماہرین شامل تھے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ابوبکر خدا بخش کی سربراہی میں قائم کمیشن میں تفتیشی ایجنسیوں، اوگرا کے سابق اراکین اور اٹارنی جنرل سمیت دیگر ماہرین شامل تھے۔

163 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ میں کمیشن نے تحریر کیا ہے کہ ویٹرنری ڈاکٹر شفیع آفریدی کو وزارت میں ڈی جی آئل لگا دیا گیا جن کے پاس آئل سیکٹر میں کام کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ وہ ریسرچ آفیسر عمران ابڑو کی ملازمت میں توسیع کے لیے خلافِ ضابطہ سفارش بھی کرتے رہے۔

رپورٹ کے مطابق ڈی جی آئل و پیٹرولیم ڈویژن کے افسر عمران ابڑو غیر قانونی طور پر کوٹہ مختص کرنے میں ملوث رہے ہیں۔

کمیشن نے معاونِ خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر اور سیکریٹری پیٹرولیم کی کارگردگی پر بھی سوال اُٹھاتے ہوئے رپورٹ میں لکھا ہے کہ پیٹرولیم ڈویژن کی کہانی بے حسی، نااہلی اور بدعنوانی سے جڑی ہوئی ہے۔

متوقع گیس بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟
کمیشن کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ذخیرہ اندوزی میں ملوث رہی ہیں۔ تیل کی درآمد پر پابندی کے باعث ذخیرہ اندوزی سے ملک میں بحران پیدا ہوا۔ تیل کمپنیوں نے تیل درآمد کر کے ذخیرہ اندوزی کی جس سے بحران شدت اختیار کر گیا۔
“آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے گہرے سمندر میں کارگو روک کر پیٹرول کی قلت پیدا کی۔ بھارت میں نو، بنگلہ دیش میں پانچ جب کہ پاکستان میں 34 آئل مارکیٹنگ کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ نو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے ساڑھے پانچ ارب روپے ناجائز منافع کمایا۔”

کمیشن نے لکھا ہے کہ اوگرا نے خلافِ قانون اور بے ضابطگیوں پر مبنی اقدامات کیے اور بحران کے دنوں میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہا . کمیشن نے اوگرا کو ‘سفید ہاتھی’ قرار دیتے ہوئے تحریر کیا کہ اوگرا کی ذمہ داری تھی کہ وہ 20 دن تک تیل ذخیرہ کرتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق اوگرا کو 2002 میں تشکیل دیا گیا اور 2006 میں تیل کی صنعت کو باقاعدہ بنانے کے لیے کچھ اختیارات دیے گئے۔ لیکن اس کے قواعد وضع کرنے میں اوگرا کو 14 سال کا عرصہ لگا۔تیل کی مصنوعات کے لیے ریگولیٹر کبھی بھی ان قواعد کو عملی جامہ پہنانے اور نافذ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور اوگرا آرڈیننس 2002 کے توسط سے اس کو جو ذمہ داری دی گئی تھی اس سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا۔

کمیشن نے 15 روز بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کا فارمولہ ختم کر کے ماہانہ بنیاد پر قیمتیں مقرر کرنے کی بھی سفارش کی ہے.رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے کا طریقہ کار انتہائی پرانا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز کو پہلے سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ آئندہ ماہ قیمتیں کم ہو جائیں گی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیزل کی قیمت میں یکمشت 32 روپے جب کہ پیٹرول کی قیمت میں 26 روپے اضافہ کیا گیا جس سے کمپنیوں کو فائدہ لیکن عوام کو اس کا نقصان ہوا۔

رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن نے مارچ میں پیٹرول کی درآمد پر پابندی عائد کر کے غلطی کی۔ جب یہ پابندی عائد کی گئی تو پیٹرول کی قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ میں سب سے کم سطح پر تھیں اور پاکستان اور اس کے صارفین کو اس کے فائدے سے محروم کیا جا رہا تھا۔یٹرولیم ڈویژن اور ڈی جی آئل، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ذریعے فروری سے اپریل 2020 تک اسٹاک کی بحالی کو یقینی بنانے میں ناکام رہے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے مقامی ریفائنریوں کے کوٹہ فارم اٹھانے سے انکار کر دیا۔

کمیشن نے ایک کمپنی ‘بائیکو’ کی مثال دیتے ہوئے لکھا کہ اس کا مالک عامر عباسی 23 ارب روپے کے فراڈ میں ملوث ہے۔ مگر نیب سندھ کے ساتھ اس نے ایک ارب روپے میں پلی بارگین کر لی ہے۔ اس کمپنی کی کراچی کے قریب دو ریفائنریز ہیں لیکن دونوں بند پڑی ہیں اور اربوں روپے کا کوٹہ اس کمپنی کو دیا گیا ہے۔

Shares: