پی آئی اے کی نجکاری میں انتہائی کم بولی: ترجمان نے تشویش کا اظہار کردیا

PIA

قومی ایئر لائن پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے عمل میں انتہائی کم بولی لگائے جانے پر ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ خان نے اسے بدقسمتی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس عمل سے بہت زیادہ توقعات تھیں، کیونکہ پی آئی اے دنیا کے قدیم ترین اداروں میں سے ایک ہے۔ ان کے مطابق، پی آئی اے ایک منافع بخش ادارہ ہے، اور اتنی کم بولی اس کی حقیقی قیمت کی عکاسی نہیں کرتی۔عبداللہ حفیظ خان نے نجی ٹی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی تقسیم کے بعد، جب اسے پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی اور پی آئی اے سیل میں تبدیل کیا گیا، تو گزشتہ دو دہائیوں سے چلنے والے قرضے پی آئی اے کی بیلنس شیٹ سے ختم کر دیے گئے۔ اس کے نتیجے میں، پی آئی اے ایک نئی، صاف کمپنی کے طور پر سامنے آیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ "پی آئی اے آپریٹنگ لیول پر ایک منافع بخش ادارہ ہے۔” ان کے مطابق، صرف لندن ہیٹھرو کے روٹ کی قدر 100 ملین ڈالر ہے، جو کہ تقریباً 30 ارب روپے بنتی ہے۔ اس میں پراپرٹیز، اثاثے، اور 33 جہاز شامل ہیں۔ پی آئی اے کے پاس 17 اے 320 طیارے ہیں، جن میں سے ہر ایک کی قیمت 120 سے 150 ملین ڈالر کے درمیان ہے۔ عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ "نئے اے 320 کی قیمت 30 ارب روپے سے زیادہ ہو سکتی ہے، جبکہ پرانے جہاز کی قیمت کم لگائی جا سکتی ہے۔ترجمان پی آئی اے نے یہ بھی وضاحت کی کہ بولی کے دوران کنفیوژن کی صورتحال تھی۔ انہوں نے کہا، "پی آئی اے ایک بین الاقوامی ادارہ ہے اور اسے چلانے کے لیے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔” تاہم، انہوں نے بتایا کہ غیر ملکی سرمایہ کار اس پورے عمل سے دور رہے، اور جو سرمایہ کار آئے وہ پی آئی اے کی کتابوں اور اثاثوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکے۔
عبداللہ حفیظ خان نے اس بات کا ذکر کیا کہ نجکاری کے عمل میں کوئی مغربی ملک یا کمپنی شامل نہیں تھی، اور نجکاری کمیشن نے صرف دوست ممالک سے رابطہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب انہیں دوبارہ تیاری کرنی پڑے گی۔یہ واضح رہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ ایک بار پھر التوا کا شکار ہو گیا ہے، جو کہ شہباز حکومت اور اس کے پالیسی سازوں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ واحد بولی لگانے والی کمپنی بلیو ورلڈ نے پی آئی اے کی قیمت صرف 10 ارب روپے لگائی، جو نجکاری کمیشن کی جانب سے کم سے کم قابل قبول 85 ارب روپوں کی مالیت سے 75 ارب روپے کم ہے۔
پانچ دیگر منظور شدہ سرمایہ کاروں نے بولی میں حصہ ہی نہیں لیا۔ پی آئی اے کی تقسیم کے بعد، اس کے اثاثوں کی کل مالیت 165 ارب روپے ہے، جبکہ نجکاری کے لیے پیش کیے گئے 60 فیصد حصص کی مالیت 99 ارب روپے ہے۔آج کی ناکام بولی پرائیوٹائزیشن کمیشن کے فیصلہ سازوں کی کارکردگی اور حکمت عملی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایک سال سے زیادہ عرصے کے نجکاری کے عمل کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا، جس نے مقامی سرمایہ کاروں کو بھی مایوس کیا، جو کہ غلط اعداد و شمار اور غلط بیانی کی وجہ سے نالاں رہے۔
ایک سرمایہ کار کے مطابق، پی آئی اے کے بین الاقوامی روٹس کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال اور قرضوں کے حجم کے بارے میں ابہام کی وجہ سے وہ بولی لگانے سے دور رہے۔ انہوں نے بتایا کہ "یہاں تک کہ واحد بولی بھی غیر سنجیدہ تھی، جو پی آئی اے کے ایک جہاز کی قیمت کے لیے بھی ناکافی تھی۔امید کی جا رہی ہے کہ اس ناکام بولی کے بعد حکومت پاکستان کو پی آئی اے کی نجکاری کے عمل پر دوبارہ غور کرنا پڑے گا، کیونکہ اس ناکامی سے نہ صرف قومی ایئر لائن کی مالی حیثیت متاثر ہوئی ہے بلکہ یہ شہباز حکومت کی حکمت عملی پر بھی سوال اٹھاتی ہے۔

Comments are closed.