اردو کے مصنف، شاعر، نقاد اور پروفیسرملک زادہ منظور احمد

دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

ملک زادہ منظور احمد

ملک زادہ منظور احمد اردو کے مصنف، شاعر، نقاد، پروفیسر اور مشاعروں میں منفرد فن نظامت کے لیے شہرت رکھتے تھے ملک زادہ منظور احمد 17 اکتوبر، 1929ء کو بھارت کے فیض آباد ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کاخاندان ایک سادات گھرانہ تھا۔

تعلیم
۔۔۔۔۔
ملک زادہ نے تین مختلف شعبوں، یعنی انگریزی، تاریخ اور اردو میں ایم اے کیا۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد: فکروفن کے عنوان سے مقالہ تحریر کرکے پی ایچ ڈی مکمل کی۔

ملازمت
۔۔۔۔۔
ملک زادہ 1951ء میں جی وی ایس کالج، مہاراج گنج میں تاریخ کے لیکچرر بنے۔ 1952ء میں وہ جارج اسلامیہ کالج، گورکھپور میں تاریخ کے لیکچرر بنے۔ اس کے بعد 1964ء تک وہ انگریزی ادبیات کے لیکچرر بنے۔ 1964ء سے 1968ء تک ریڈر، صدر شعبہ اور پروفیسر بنے۔ وہ 1990ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔

مدیر، رسالہ امکان۔ یہ ایک ماہنامہ کی شکل میں شروع ہوا۔ اس میں منظور ایک کالم کسک کے عنوان سے لکھتے جو بہت مشہور ہوا۔ اسی کالم میں ایک بار منظور نے لکھا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ امکان ان کی زندگی میں بند نہ ہو صدر، آل انڈیا اردو رابطہ کمیٹی، صدر، فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنو اور رکن، ایگزیکیٹیو کمیٹی، لکھنؤ یونیورسٹی رہے-

تخلیقات
۔۔۔۔۔
۔ (1)کالج گرل، 1954ء (ناول)
۔ (2)اردو کا مسئلہ (مقالہ)، 1957ء
۔ (3)سحر سخن 1961ء، (مجموعہ کلام)
۔ (4)ابوالکلام آزاد: فکرروفن، 1964ء
(تحریروں کا تنقیدی جائزہ)
۔ (5)ابوالکلام آزاد الہلال کے آئینے میں
۔ (6)غبارخاطر کا تنقیدی جائزہ
۔ (7)سحر ستم (مجموعہ کلام)
۔ (8)رقص شرر، 2004ء
(خود نوشت سوانح حیات)
اس کتاب کے مطالعے سے اُس دور کی
ادبی تہذیب کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس زمانے میں خاص شاعرات کے
مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ اس طرح کا
پہلا مشاعرہ منظور کی کوششوں سے
گورکھپور میں منعقد ہوا تھا۔
شاعرات بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر
مشاعرے میں آتی تھیں۔
یہ لوگ دلکش ترنم سے سطحی اور
غیر معیاری غزلیں پڑھا کرتی تھیں
جن کا خالق کوئی اور ہوا کرتا تھا۔
۔ (9)انتخات غزلیات نظیر اکبر آبادی
(منتخب غزلیں)
۔ 200 کتابوں کے پیش لفظ

اعزازات
۔۔۔۔۔
۔ (1)زندگی بھر اردو ادب میں
تعاون کرنے کے لیے
اترپردیش اردو اکادمی کا اعزاز
۔ (2)اترپردیش اردو اکادمی کا ایوارڈ
برائے فروغ اردو
۔ (3)زندگی بھر اردو ادب میں
تعاون کرنے کے لیے
مدھیہ پردیش اردو اکادمی کا اعزاز
۔ (4)آل انڈیا میر اکیڈمی کی جانب سے
امتیاز میراعزاز
۔ (5)آل انڈیا میر اکیڈمی کی جانب سے
افتخاز میراعزاز
۔ (6)زندگی بھر اردو ادب میں
تعاون کرنے کے لیے
خدابخش کتب خانے کا اعزاز
۔ (7)مے کش اکبرآبادی ایوارڈ
۔ (8)ہری ونش رائے بچن ایوارڈ
۔ (9)صوفی جمیل اختر ایوارڈ
۔ (10)عالمی اردو کانفرنس، نئی دہلی
کی جانب سے فراق سمان
۔ (11)زندگی بھر کی کامیابیوں کے لیے
مومن خان مومن اعزاز
۔ (12)گریٹر شکاگو کی سابق عثمانیہ یونیورسٹی
کے سابقہ طلبا کی جانب سے فخر اردو ایوارڈ
۔ (13)پریاگ کوی سمیلن کی جانب سے
ساہتیہ سرسوت ایوارڈ۔

غزل
۔۔۔۔۔
شمع کی طرح شب غم میں پگھلتے رہئے
صبح ہو جائے گی جلتے ہیں تو جلتے رہئے
وقت چلتا ہے اڑاتا ہوا لمحات کی گرد
پیرہن فکر کا ہر روز بدلتے رہئے
آئنہ سامنے آئے گا تو سچ بولے گا
آپ چہرے جو بدلتے ہیں بدلتے رہئے
آئی منزل تو قدم آپ ہی رک جائیں گے
زیست کو راہ سفر جان کے چلتے رہیے
صبح ہو جائے گی ہاتھ آ نہ سکے گا مہتاب
آپ اگر خواب میں چلتے ہیں تو چلتے رہئے
عہد امروز ہو یا وعدۂ فردا منظورؔ
ٹوٹنے والے کھلونے ہیں بہلتے رہئے

غزل
۔۔۔۔۔
مرا ہی پر سکوں چہرا بہت تھا
میں اپنے آپ میں بکھرا بہت تھا
بہت تھی تشنگی دریا بہت تھا
سرابوں سے ڈھکا صحرا بہت تھا
سلامت تھا وہاں بھی میرا داماں
بہاروں کا جہاں چرچا بہت تھا
انہیں ٹھہرے سمندر نے ڈبویا
جنہیں طوفاں کا اندازا بہت تھا
اڑاتا خاک کیا میں دشت و در کی
مرے اندر مرا صحرا بہت تھا
زمیں قدموں تلے نیچی بہت تھی
سروں پر آسماں اونچا بہت تھا

متفرق اشعار
۔۔۔۔۔
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے
جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے

خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے
آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے

دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا

انہیں ٹھہرے سمندر نے ڈبویا
جنہیں طوفاں کا اندازا بہت تھا

عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں
کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے

وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے

رسم تعظیم نہ رسوا ہو جائے
اتنا مت جھکئے کہ سجدہ ہو جائے

جن سفینوں نے کبھی توڑا تھا موجوں کا غرور
اس جگہ ڈوبے جہاں دریا میں طغیانی نہ تھی

حال پریشاں سن کر میرا آنکھ میں اس کی آنسو ہیں
میں نے اس سے جھوٹ کہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

روشن چہرہ بھیگی زلفیں دوں کس کو کس پر ترجیح
ایک قصیدہ دھوپ کا لکھوں ایک غزل برسات کے نام

دیوانہ ہر اک حال میں دیوانہ رہے گا
فرزانہ کہا جائے کہ دیوانہ کہا جائے

زندگی میں پہلے اتنی تو پریشانی نہ تھی
تنگ دامانی تھی لیکن چاک دامانی نہ تھی

کیا جانئے کیسی تھی وہ ہوا چونکا نہ شجر پتہ نہ ہلا
بیٹھا تھا میں جس کے سائے میں منظورؔ وہی دیوار گری

کھل اٹھے گل یا کھلے دست حنائی تیرے
ہر طرف تو ہے تو پھر تیرا پتا کس سے کریں

عرض طلب پر اس کی چپ سے ظاہر ہے انکار مگر
شاید وہ کچھ سوچ رہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

اب دیکھ کے اپنی صورت کو اک چوٹ سی دل پر لگتی ہے
گزرے ہوئے لمحے کہتے ہیں آئینہ بھی پتھر ہوتا ہے

نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کو پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے

کچھ غم جاناں کچھ غم دوراں دونوں میری ذات کے نام
ایک غزل منسوب ہے اس سے ایک غزل حالات کے نام

وقت شاہد ہے کہ ہر دور میں عیسیٰ کی طرح
ہم صلیبوں پہ لیے اپنی صداقت آئے

بے چہرگی کی بھیڑ میں گم ہے مرا وجود
میں خود کو ڈھونڈھتا ہوں مجھے خد و خال دے

دور عشرت نے سنوارے ہیں غزل کے گیسو
فکر کے پہلو مگر غم کی بدولت آئے

کاش دولت غم ہی اپنے پاس بچ رہتی
وہ بھی ان کو دے بیٹھے ایسی مات کھائی ہے

Comments are closed.