پیرس کی منفرد شاعرہ ممتاز ملک

0
31

کتنے ہنگامے تھے وابستہ اسی کے دم سے
وہ جو چپ چاپ میرے شہر سے جانے والا

ممتازملک

پیرس کی منفرد شاعرہ
۔۔۔۔۔۔۔
اور کالم نگار : ممتاز ملک
۔۔۔۔۔۔۔
سلمیٰ صنم
۔۔۔۔۔۔۔
نام ممتاز ملک، تخلص ممتاز ہے۔ 22 فروری کو روالپنڈی پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ان کے والد ملک خالد لطیف کا تعلق پنجابی قطب شاہی اعوان ( ملک) سے اور والدہ خورشید بیگم کا تعلق پختون قبیلے سے تھا۔ممتاز ملک نے گورنمنٹ گرلز آہی اسکول، مری روڈ روالپنڈی سے میٹرک کیا اور پھر ایف ایے اور بی آئی کی ڈگری پرائیوٹ طور حاصل پر کی۔

اپنے حالات زندگی کے بارے میں وہ یوں لکھتی ہیں ”میں 4 بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی ۔ 5 بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہوں ۔ میری پیدائش کے لیے کوئی منت نہیں مانی گئی ۔ نہ ہی کوئی خوشی منائی گئی کیونکہ میرے والد صاحب جو ( ذات سے قطب شاہی اعوان۔ ملک خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنی 5 پھوپھیوں اور 5 بہنوں والے گھر میں بیٹیوں سے بہت زیادہ ہونے والی محبت سے خائف رہا کرتے تھے۔ ان سب کی محبتوں کا قرض میں نے اپنے والد صاحب کی نفرت کا بوجھ اٹھا کر چکایا۔

میری والدہ 16 سال کہ عمر میں بیاہ کر آئیں۔ (ان کا تعلق پختون قبیلے آشاخیل سے تھا) ان کے لیئے ان پڑھ لیکن بیحد حسین ہونے کے ساتھ ایک نئی قوم قبیلے اور زبان میں داخلہ خود ایک صبر آزما مرحلہ تھا وہاں وہ بیٹی کی پیدائش کو اتنا بڑا امتحان سمجھتی تھیں کہ میری پیدائش پر وہ خوب روئیں اور خدا سے آئندہ مذید کسی بھی بیٹی کی پیدائش سے معافی مانگ لی کہ اتنے سارے امتحانات میں ایک ایسے انسان کی بیٹیاں نہ دینا جو اس سے بیزار ہو۔میرا گھر میرے لئے ایک۔قید۔خانہ تھا اور میں 24گھنٹے کی بے تنخواہ ملازمہ جس کی اجرت تھی 3وقت کا کھانا اور سال کے 3 جوڑے کپڑے میرے والد صاحب اعلیٰ پائے کے میکنک تھے۔ اپنے کام میں ان کا کوئی جوڑ نہیں تھا ۔

گھر سے باہر وہ ایک مہربان ترین انسان تھے۔ اور گھر میں ان کے آتے ہیں ہم بہن بھائی چھپنے کے لیے کونے کھدرے تلاش کیا کرتے تھے۔ اس ڈر سے کہ جانے کب کس بہانے آج ہمیں پانی بھرنے والے پلاسٹک کے پائپ سے یا بیلٹ سے مار کھانی پڑ جائے ۔

میری شادی 07 جنوری 1996ء 15 شعبان المعظم کو بروز اتوار لاہور سے تعلق رکھنے والے شیخ محمد اختر صاحب کےساتھ ہوئی جو پاکستان سے ایف ایس سی پاس کرتے ہی لڑکوں کے گروپ کے ساتھ فرانس چلے گئے تھے۔ وہیں کچھ زبان سیکھی مختلف جابز کیں۔ 1980 سے پیرس میں مقیم تھے۔ سیلز مین بھی رہے اپنا اوپن بازار میں (جسے فرنچ میں مارشا کہتے ہیں) کھلے کپڑے کا کاروبار کیا۔ کچھ عرصہ ایک دوست کے ساتھ مل کر اطالیہ (درزی خانہ) بھی چلایا ۔ پھر اپنی بوتیک بنائی۔ آج کل ایک الیکٹرونکس ڈپو پر جاب کرتے ہیں ۔

الحمد اللہ وہ بہت اچھے اور مددگار انسان ہیں ۔ میں آج جو کچھ ہوں اپنے شوہر کی ہی حوصلہ افزائی کے سبب ہوں ۔ لکھنے کا باقاعدہ آغاز 2008 میں کیا مگر بچپن سے ہی وہ کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی تھیں۔ اپنے لکھاری بننے کے تعلق سے وہ یوں رقم طراز ہیں :

” فنکار، شاعر، لکھاری، مصور سب پیدائش ہوتے ہیں ان کی صلاحیتوں کو زیادہ سےزیادہ پالش کرکے نکھارا جاسکتا ہے انھیں بنایا نہیں جاسکتا۔ میں بھی پیدائشی شاعرہ ہوں۔ قافیہ ردیف کی سمجھ میری فطرت میں گوندھی گئی تھی میں نے کسی سے شاعری نہیں سیکھی۔ بچپن میں کورس کی کتابیں خریدتے ہی دو تین روز میں ہی ساری پڑھ لیا کرتی تھی۔ صرف یہ ہی ہوتا تھا ذہن میں کہ اس میں نیا کیا لکھا ہے۔ یوں جو کتاب سامنے آتی اچھا برا، بڑوں کا چھوٹوں کا کوئی بھی موضوع ہوتا بلالحاظ و تفریق پڑھنے بیٹھ جاتی تھی ۔ اسی مطالعے نے مجھے بولنے کے لیئے الفاظ کا ذخیرہ عطا کر دیا۔

جو بعد میں میرے قلم کی سیاہی بن گیا لیکن میں اپنے سکول کے دنوں میں انتہائی شرمیلی سی شرارتی بچی ہوا کرتی تھی ۔ جو کسی کے بھی اپنی جانب متوجہ ہونے پر گھبرا جایا کرتی تھی ۔ اس لیئے اپنی کوئی تحریر کسی کو سنانے کی کبھی جرات نہیں ہوئی ۔ نہ ہی کبھی چھپوانے کا سوچا ۔ ابو جی بھی بہت سخت مزاج تھے ۔ حالانکہ ان کو شاعری کا خوب شعور تھا۔ان کا شعری ذوق اور میوزک کولکیشن شاندار تھا بس مجھے پڑھنے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ بقول انکے میں لڑکی تھی اور لڑکیاں پڑھ لکھ کر ماں باپ کا منہ کالا کرواتی ہیں ۔ ہمارے گھر میں تو رسالوں کا داخلہ ممنوع تھا ۔

میری کتابیں پھاڑ دی جاتی تھیں ۔ کتابیں پڑھنے پر خوب مار کھانا پڑتی تھی۔ کسی سے ملنے کیا دروازے پر جانے تک کی اجازت نہ تھی ۔ وہاں شاعری کا نام لینا کیسے ممکن پوتا ۔ اس لئے لکھنے کا یہ شوق دل ہی میں کہیں دفن رہا ۔ ان تحریروں کو سنبھالنے کا خیال بھی تب ہوتا جب وہ مجھے خود بھی اہم لگتا اور یقین ہوتا کہ میں انہیں کبھی کہیں شائع کروا پاونگی ۔ لیکن یہ جراثیم تب سے ہی مجھ میں موجود رہے ۔
پھر زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے لگا ایک ایک بندے کے ساتھ کھپ کھپ کے اور اس کے ساتھ بحث کر کے اسے کسی بات پر قائل کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ میں اسے لکھ کر ہزاروں لوگوں کے سامنے بیک جنبش قلم پیش کر دیا کروں ۔ کچھ لوگ مخالف ہوں گے تو وہ اس پر سوچیں گے ۔ اور جو اس بات کے حامی ہونگے وہ اسے مزید آگے بڑھائینگے ۔

سو جناب 2008ء میں ایک مذہبی ادارے کی جنرل سیکٹری منتخب ہونے کے بعد مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ مائیک کسقدر اہم ہے جسے لوگ مفاد پرستی اور منافقت کے لیئے استعمال کرتے ہیں جبکہ اسے بہت پاورفل انداز میں مثبت تبدیلیوں کے لیئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ سو میں نے بطور جنرل سیکٹڑی کیساتھ سٹیج سیکٹری کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ۔ تین گھنٹے کا پروگرام مکمل مطالعے کے تحت کسی ایک ہی موضوع پر ہوتا ۔ جس میں اس موضوع پر آیات و احادیث و واقعات تجربات ،مشاہدات سبھی کچھ شامل ہوتا تھا ۔ جس کے لیئے میں ایک یا دو پروگرامز کے لیئے سارا مہینہ دیوانہ وار تیاری کیا کرتی تھی۔ بس یہ سمجھیں وہ میرا لکھاری بننے کی جانب ایک بڑا بھرپور اور یقینی قدم تھا ۔

لکھنے کاباقاعدہ آغاز 2008 ء ہی میں ہوا۔ پہلے تخلیقات 2010ء سے تک صرف میرے دوستوں کی محفل تک ہی پہنچتی تھیں ۔ انہیں کے ذریعے جب پیرس میں فیض احمد فیض کے یوم پیدائش کی صدسالہ تقریبات کا پروگرام ہوا تو کہیں میرا ذکر بھی کسی کی زبانی ہوا تو ادبی تنظیم ” قلم قافلہ” نے میرا نمبر ڈھونڈ کر مجھے بارسلونا ریڈیو پر اپنا کلام پیش کرنے اور گفتگو کے لیئے مدعو کیا ۔ یوں یہ راز سر عام آ گیا کہ سنا ہے پیرس میں ممتازملک بھی کوئی خاتون ہے جو شعر کہا کرتی ہے یوں دوستوں نے مجھے راہ ادب میں دھکا دیدیا اور حکم ہوا کہ چلو جی کتاب لاو ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔

وہ مانتی ہیں کہ ہر لکھنے والا ان کا استاد ہے ۔کلاسیک شعراء میں انہیں اقبال اور غالب پسندہیں ان کے علاوہ انہیں حبیب جالب۔ محسن نقوی۔ فراز ۔ منیر نیازی کی شاعری بہت اچھی لگتی ہے۔ان کے بارے میں وہ لکھتی ہیں “شاعری تو ہم سب نے ہی پڑھ رکھی ہے اور پسند بھی کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے خصوصا جن کے کلام نے ہمیشہ ہی متاثر کیا ہے ان میں حبیب جالب روایت شکن اور انقلابی نظریات لیئے ہوئے ہیں تو محسن نقوی سچ کا آئینہ یوں دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والا اپنے عکس سے بھی انجان لگتا ہے ،منیر نیازی جب لفظوں کی مالا پروتے ہیں تو پڑھنے والا ملنگ ہو ہی جاتا ہے ۔

اشفاق احمد کی زندگی کے تجربات ہمیں روشنی کا مینارہ دکھاتے ہیں ۔ تو مشتاق احمد یوسفی اور یونس بٹ کی تحریروں سے تھکی ہوئی زندگی کے اندھیرے میں ڈسکو لائٹس کا سواد آ جاتا ہے ۔ یہ سب مجھے متاثر کرتے ہیں ۔ اور مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں ان کے ساتھ ایک ہی دور میں موجود ہوں اور ہمیشہ گنی جاونگی ۔

عصر حاضر کے شعراء میں امجد اسلام امجد صاحب اور شہناز مزمل ،رقیہ غزل ، نیلما ناہید درانی ان کے پسندیدہ شاعر و شاعرات ہیں۔ شعر گوئی ان کے نزدیک قلبی واردات سے مشروط ہے ۔وہ سمجھتی ہیں کہ جو بات آپ کے دل تک نہیں پہنچتی آپ کی روح کو نہیں جھنجھوڑتی وہ کسی اور پرکوئی اثر نہیں چھوڑے گی ۔بقول ان کے۔ پیغمبر پر وحی خدا کی دین ہے تو شاعر پر شعر اللہ کی عطاء ہے ۔ وہ چاہے تو آپ کے دل کو حساسیت کے ساتھ الفاظ کی ترتیب و ترنم عطاء فرمادیگا۔وہ نہ دے تو کوئی شعر کوئی نغمہ ترتیب نہیں پا سکتا ۔

وہ شاعری کے علاوہ کالم بھی لکھتی ہیں شروع سے ہی شاعری اور نثر نگاری ان کے ساتھ ساتھ چل رہی ہےاس طرح انہیں شاعری اور نثر نگاری دونوں ہی پسند ہیں ۔ کیونکہ بقول ان کےجو باتیں قافیئے اور ردیف کی بندش نہ سہہ پائیں اور پنچرہ توڑ کر الفاظ کے پنکھ لگا لیں تو نثر کی صورت اڑان بھرنے لگتی ہیں ۔ اور اڑتے پرندے کسے اچھے نہیں لگتے-

ان کے مشاغل ہیں مطالعہ کرنا ، لکھنا ، فلاور میکنگ، ہوم ڈیکوریشن، ڈرائنگ ، سکیچنگ ، ککنگ، سوشل ورک، مقررہ، ٹیچنگ۔اوران کی مصروفیات ہیں نعت خوانی ، شاعری، کالم نگاری ، لکھاری، ٹی وی ہوسٹنگ ، اصلاحی و تربیتی لیکچرز دینا ، بلاگر ، کوٹیشنز رائیٹر ، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ وغیرہ ۔

وہ فرانس میں پہلے پاکستانی ویب ٹی وی / Ondesi tv پر پروگرام “انداز فکر” کی میزبان و لکھاری ہیں جس کی 29 (انتیس) کے قریب اقساط یوٹیوب پر بھی موجود ہیں ۔وہ اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی لکھتی ہیں ۔اب تک ان کی پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں-
۔ (1)” مدت ہوئی عورت ہوئے “
شعری مجموعہ(2011ء)
۔ (2)”میرے دل کا قلندر بولے “
شعری مجموعہ(2014ء)
۔ (3)”سچ تو یہ ہے“
کالمز کا مجموعہ(2016ء)
۔ (4)” اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم “
نعتیہ مجموعہ( 2019 ء)
۔ (5)”سراب دنیا“
شعری مجموعہ کلام (2020ء)
پانچ کتابیں زیر طبع کتب ہیں
۔ (1)پنجابی شعری مجموعہ کلام
۔ (2)نظموں کا مجموعہ
۔ (3)شاعری کا مجموعہ
۔ (4)کالمز کا مجموعہ
۔ (5)کوٹیشنز کا مجموعہ
۔ بنام ” چھوٹی چھوٹی باتیں ”
وہ فرانس میں پہلی پاکستانی نسائی ادبی تنظیم “راہ ادب” کی بانی اور صدرہیں۔ ان کی کتابوں پر انھیں کئی اعزازات اورانعامات سے نوازا گیا ہے۔
اعزازات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی کتاب “سراب دنیا” پر ایک ایم فل کا مقالہ طالب علم نوید عمر (سیشن 2018ء تا 2020ء) صوابی یونیورسٹی پاکستان سے لکھ چکے ہیں ۔
انعامات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)دھن چوراسی ایوارڈ
چکوال پریس کلب 2015ء/
۔ (2)حرا فاونڈیشن شیلڈ 2017ء/
۔ (3)کاروان حوا اعزازی شیلڈ 2019ء/
۔ (4)دیار خان فاونڈیشن شیلڈ 2019ء/
۔ (5)عاشق رندھاوی ایوارڈ 2020ء/
اور بہت سے دیگر اسناد۔۔۔۔
☆تصنیفات
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)مدت ہوئی عورت ہوئے
۔ شعری مجموعۂ کلام-(2011ء)
۔ (2)میرے دل کا قلندر بولے
۔ شعری مجموعۂ کلام-( 2014ء)
۔ (3)سچ تو یہ ہے
۔ مجموعہ مضامین (2016ء)
۔ (4) اے شہہِ محترم (صلی اللہ علیہ وسلم)
۔ نعتیہ مجموعہ کلام ( 2019ء)
۔ (5) سراب دنیا۔
۔ شعری مجموعہ کلام ( 2020ء )
زیر طبع کتب۔5
☆آغازِ تحریر: 1998ء سے
☆پتا:79 avenue de Rosny
۔ 93250 Villemomble
۔ France

۔۔۔۔۔۔
اعزازات
۔۔۔۔۔۔
میری کتاب سراب دنیا پر ایک ایم فل کا مقالہ ۔ طالب علم نوید عمر (سیشن 2018ء تا 2020ء) صوابی یونیورسٹی پاکستان سے لکھ چکے ہیں ۔

وہ سماجی اور اخلاقی موضوعات پر لکھنا زیادہ پسند کرتی ہیں ۔ ہم انہیں معاشرتی اور گھریلو مسائل پر بات کرتے ہوئے زیادہ پائیں گے ۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ہر گھر معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے اور جب بہت ساری اکائیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو ہی کوئی معاشرہ تشکیل پاتا یے ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھ کر اپنے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے رہنا اور اس کی اصلاح کے لیئے تجاویز پیش کرتے رہنا ہی ایک اچھے لکھاری اور کالم نگار کی ذمہ داری ہے ۔ جسے وہ پورا کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔ اسی سلسلے میں ان کی گھریلو مسائل پر لکھی گئی تحاریر اور بچوں کی پرورش اور بڑھتی عمر کیساتھ ان کے مسائل پر لکھی گئی تحاریر ان کے دل سے بہت ذیادہ قریب ہیں ۔ جیسے کہ “بچے ،بچپن اور تحمل” ۔ “پاس نہیں قریب رہو “۔ “مائیں بور نسلیں تباہ” ۔ “گھروں کو گھر ہی رہنے دیں” ۔ اور بہت سے دوسرے کالمز بقول ان کے ان کی دل کی آواز ہیں ۔

ان کے کالمز چالیس (40) سے زیادہ ویب سائٹس اخبارات میں شائع ہوتے ہیں جیسے جنگ اوورسیز ۔آزاد جائزہ ، ڈیلی میزبان ، عالمی اخبار وغیرہ ۔
رقیہ غزل ان کے بارے میں لکھتی ہیں:
”ممتاز ملک صاحبہ فن شعر گوئی میں اپنے منفرد لہجے اور اسلوب کی بدولت نمایاں مقام رکھتی ہیں ۔ ۔ویسے بھی نسوانی جذبات کا اظہار ایک عورت سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ عملاً ان تجربات سے گزرتی ہے اس لیے کسی بھی عورت نے جب قلم اٹھایا تو عورت کی بے توقیری ، جذبوں کی پامالی ،مرد کی بے وفائی کے دکھ کو اپنا موضوع سخن بنایا ہے ممتاز ملک رہتی پیرس میں ہیں مگر ان کا کلام اور کالم ان کے پاکستان میں ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔

ممتاز ملک کی شخصیت کا احاطہ تو بہت مشکل ہے کیونکہ وقار و تمکنت ان کا خاصہ اور شائستگی انکی فطرت کا حصہ ہے وہ لفظوں سے کھیلنا خوب جانتی ہیں ۔جہاں ان کے لفظوں کی کاٹ قاری کو بڑھکاتی ہے وہاں رم جھم سے گنگناتے ہوئے اشعار ذہنوں پر مثبت اور روحانی سکون چھوڑتے ہیں ۔ انسان بہتے پانیوں کی طرح ان کے سحر انگیز کلام کے زیر اثر شعری تصور کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے ۔اور یوں ایک قاری اور سامع ان کا کلام دل و دماغ میں یوں اٹھا ئے پھرتا ہے جیسے وہ کوئی جاگیر لئے پھرتا ہے کیونکہ ان کا اندازواقعی دلپذیر ہے ۔ممتاز ملک کا شمار ایسے قلمکاروں میں ہوتا ہے جو اپنے محسوسات ،مشاہدات اور عملی تجربات کو دوسروں تک پہنچانے کا فن جانتی ہیں ۔انھوں نے نہایت سادہ اور عام فہم انداز بیان کو اختیار کر کے مختلف مگر بے شمار موضوعات پر طبع آزمائی فرمائی ہے جو کہ قابل داد ہے” ۔

عاشق حسین رندھاوی ان کی نعت گوئ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”نعت گوئی اہلِ ایمان اور مذہب اسلام سے وابستہ لوگوں کا ایک فکری اور دلی عقیدت نامہ اور اصناف سخن کا سب سے اعلیٰ اور پاکیزہ حصہ ہے ۔ مگر یہ جس قدر سعادت وخوش بختی بلکہ آپ ﷺ سے بے پناہ عقیدت ومحبت کی دلیل ہے وہیں سب سے مشکل ،دشوار گزار اور بال سے زیادہ باریک راستہ ہے ۔ نعت کا موضوع جتنا اہم ،دل آویز اور شوق انگیز ہے اتنا ہی اس موضوع پر قلم اٹھانا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے ۔خود شعر و ادب کی تخلیق کوئی کسبی چیز نہیں کہ جس کے مخصوص اوزان وبحور کو رٹ کر کچھ طبع آزمائی کرلی جائے ، بلکہ یہ ایک انعامِ الٰہی ہے جو خالقِ کائنات کی جانب سے بعض مخصوص بندوں ہی کو عطا کیا جاتا ہے۔

ان ہی چند لوگوں میں سے ممتاز ملک بھی ہیں جو علمی و ادبی حلقوں میں شاید بہت زیادہ معروف نہیں ہیں ۔ لیکن انہیں نعت کہنے کا سلیقہ آتا ہے اور انہوں نے کچھ اس انداز سے اپنے خیالات کو شعروں میں ڈھالا ہے کہ ان کے اشعار سن کر دل جھوم اٹھتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ آنے والے دور کی بہت معروف اور پختہ شاعرہ بن کر سامنے آئیں گی ۔ ان کے اشعار سننے کے بعد میرا پہلا تاثر تھا کہ محترمہ نے اگر کچھ اور نہ بھی کہا ہوتا تو بھی یہ نعت انہیں ادب میں زندہ رکھنے کے لئے کافی تھی ۔ ان کی لکھی نعت کےچند اشعار خدمت ہیں :
دیارِ نبی کا ارادہ کیا ہے
کہ خود سے ہی ہم نے یہ وعدہ کیا ہے

سجائیں گے صحنِ حرم آنسوؤں سے
تو مانگیں گے ان کا کرم آنسوؤں سے

وہ رکھیں گے اپنا بھرم آنسوؤں سے
انھیں سب بتائیں اعادہ کیا ہے
ان اشعار میں محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے اپنا عقیدہ بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اور تخیل کا یہ عالم ہے کہ عام انسان بھی ان کے اشعار کو پڑھ کر مدینے کی گلیوں میں سیر کرنے لگتا ہے ۔دعاہے اللہ تعالیٰ ان کے تخیل کو اور بھی پختہ اور بلند کرے”
ایاز محمود ایاز ان کی نعت گوئی پر یوں رقم طراز ہیں

”ان کا نعتیہ مجموعہ کلام ۔۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔اپنے نبی کریم ﷺ سے عشق ہے۔ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کے حصے میں وہ سعادت آئی جو بڑے بڑے شعراء کو نصیب نہیں ہوتی ۔ میں سمجھتا ہوں نعت لکھی نہیں جاتی لکھوائی جاتی ہے جس پہ نبی کریمﷺ کی نظرِ خاص اور خصوصی کرم ہو وہ ہی نعت لکھ سکتا ہے۔ ممتاز ملک صاحبہ نے جہاں نبی کریم ﷺ سے اپنے عشق کو اپنا موضوع سخن بنایا وہیں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے نبی کریم ﷺ کی اسوہ حسنہ کو بھی موضوع بنایا ممتاز ملک صاحبہ کے لئے دعا گو ہوں کہ آپکا یہ ہدیہ نعت آپ کی بخشش کا سبب ہو اور آپکی عقیدتوں کا یہ سفر ہمیشہ اسی طرح جاری رہے” ۔ آمین
پیش خدمت ہے ان کا نمونہ کلام

غزل
۔۔۔۔۔۔۔
وہ شب و روز میرے ساتھ بتانے والا
اب بھی ملتا ہے مگر حال زمانے والا
جب ضرورت ہو مجھے یاد بھی کر لیتا ہے
بن ضرورت کے نہیں وقت گنوانے والا
مجھ سا بیکار نہیں ہے یہ مجھے علم نہ تھا
ورنہ ہوتا نہ گلہ اس سے ستانے والا
جانے والے کو برا کہتے نہیں لوگ کہیں
خوش رہے مجھ پہ وہ الزام لگانے والا
کتنے ہنگامے تھے وابستہ اسی کے دم سے
وہ جوچپ چاپ میرے شہر سےجانے والا
اس کو نسیان عجب طرز کا لاحق ہے سنا
یاد رہتا نہیں پیمان نبھانے والا
حال اپنا نہ کھلا اس پہ وگرنہ ممتاز
وہ تو ریکھاوں سے تھا راز چرانے والا

غزل
۔۔۔۔۔۔۔
:ہوش والوں نے کیا نیلام جسکو
ایک دیوانے نے اسکی لاج رکھ لی
بے بیخودی تھی یا ندامت کیا خبر
کل جو رکھ پایا نہیں وہ آج رکھ لی
دوسروں کو بانٹ کے سارے تفاخر
اپنے حصے کی خودی محتاج رکھ لی
دفن کی اس نے محبت دھوم سے اور
مسکرا کر اک عمارت تاج رکھ لی
شیر و مکھن میں نہ تھا حصہ کوئی
میری خاطر ماں نے لیکن چھاج رکھ لی
چاک تھے جتنے گریباں سی لیئے ہیں
اس طرح سے صبر کی معراج رکھ لی
ہے محض ممتاز دھوکہ سوچ کا تو
اک غلامی تھی بنام راج رکھ لی

غزل
۔۔۔۔۔۔۔
تم گواہ ہو میری ہر سمت سفر کے سچے
اے میرے پاوں کے چھالو مجھے پیارے تم ہو
جانا چاہو تو چلے جاو میری دنیا سے
اے میرے چاہنے والو مجھے پیارے تم ہو
ہر گھڑی جس میں کوئی غم ہی گھلا ہے واللہ
خوب شفاف ہو پیالو مجھے پیارے تم ہو
میں جو سامان جہاں میں ہوں مقید ایسے
قید سے مجھکو نکالو مجھے پیارے تم ہو
آسمانوں سے گرا کر مجھے پاتالوں میں
میرے ٹکڑے نہ سنبھالو مجھے پیارے تم ہو
جس طرح زخم دیئے تم نے زباں سے اپنی
جان سے مار ہی ڈالو مجھے پیارے تم ہو
ہاتھ جل جائے نہ تن من تو جلا ہے پہلے
یوں نہ انگار اچھالو مجھے پیارے تم ہو
وقت رخصت کی سمجھ لو اسے دنیاداری
مجھ کو سینے سے لگا لو مجھے پیارے تم ہو
اب تو ممتاز جلن سانس کا حصہ ٹہری
اور بھی چاہے جلا لو مجھے پیارے تم ہو

نظم
۔۔۔۔۔
”ماں کے ہاتھوں کا دیا“
۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنی ماں کے
حسین ہاتھوں کا وہ دیا ہوں
وہ جس کی مدھم سی روشنی میں
ہر ایک شئے کو تلاشتی تھی
وہ اس کی کھوئی ہوئی سوئ ہو
یا اس کے گم کردہ خواب ہوں پھر
نہ صرف وہ کھوجتی تھی ان کو
بڑے یقیں سے وہ پا بھی لیتی
کبھی جو باد ستم چلی تو
وہ اپنا ہاتھ
اس کی لو پہ رکھ کر
بنا کے چھجا بچا بھی لیتی
کبھی کبھی اس کی حدتوں سے
وہ ہاتھ اپنا جلا بھی لیتی
مگر محبت کی روشنی کو
وہ اپنا مقصد سمجھ چکی تھی
کہ یہ ہی ممتاز روشنی تھی
یہ روشنی اس کی زندگی تھی

نظم
۔۔۔۔۔
”حد نگاہ“
۔۔۔۔۔۔
یہاں سے سورج غروب ہوتا
جو میں نے دیکھا
وہاں سے لیکن
اسی گھڑی میں
طلوع صبح کی نوید
اس نے مجھے سنائی
نہ میں غلط تھی
نہ وہ غلط تھے
نہ کذب میرا
نہ جھوٹ اس کا
بس اپنے اپنے تھے یہ مناظر
بس اپنے اپنے یہ فاصلے تھے

Leave a reply