برصغیر کے عظیم انقلابی شاعر جوش ملیح آبادی

0
82

برصغیر کے عظیم انقلابی شاعر، شاعر انقلاب کے طور پر معروف

جوش ملیح آبادی

اصلی نام :شبیر احمد حسن خاں

پیدائش : ۵ دسمبر، ۱۸۹۸| ملیح آباد, اتر پردیش

وفات :۲۲ فروری، ۱۹۸۲ | اسلام آباد, پاکستان

برصغیر کے عظیم انقلابی شاعر اور مرثیہ گو جوش ملیح آبادی ان کاخاندانی نام شبیر احمد خاں تھا۔ جسے بعد میں بدل کر شبیر حسن خاں کر دیا گیا تھا۔ ان کی پیدائش ۵ دسمبر۱۸۹۸ کو ملیح آباد کے ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے والد بشیر احمد خاں بشیر بھی شاعر تھے اور داد انواب احمد خاں کا بھی شاعری سے تعلق تھا۔ اس کے علاوہ ان کے پر دادا نواب فقیر محمد خاں صاحب دیوان شاعر تھے۔ ان کے خاندان میں خواتین شاعرات بھی موجو د تھیں۔

جوش کی دادی بیگم نواب محمد احمد خاں مرزا غالب کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس طرح جوش کو شاعری ورثے میں ملی تھی جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔انہوں نے ۱۹۱۴ء میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔

جوش ملیح آبادی انقلاب اور آزادی کا جذبہ رکھنے والے روایت شکن شاعر تھے انہوں نے ۱۹۲۵ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مترجم کے طور پر کام شروع کیا اور کلیم کے نام سے ایک رسالے کا آغاز کیا اور اسی دوران شاعر ِانقلاب کے لقب سے مشہور ہوئے تقسیمِ ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کرکے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔

اپنی انہیں خداداد لسانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی جوش ملیح آبادی کثیر التصانیف شاعر و مصنف ہیں۔ ان کی تصانیف میں نثری مجموعہ ’یادوں کی بارات‘،’مقالاتِ جوش‘، ’دیوان جوش‘اور شعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے’طلوع فکر‘،’جوش کے سو شعر‘،’نقش و نگار‘ اور’شعلہ و شبنم‘ کو لازوال شہرت ملی ۲۲ فروری ۱۹۸۲ء کو جوش نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات معروف عالم اورشاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی۔

میں شاعرِآخرالزماں ہوں اے جوش

شاعر آخرالزماں جوش ملیح آبادی کا یوم وفات پر ان کے کچھ منتخب اشعار بطور خراج عقیدت. آپ سے بھی گزراش ہے کہ ان کا ایک شعر کمنٹ کر کے خراج عقیدت پیش کریں۔۔۔

🌸انتخاب و پیشکش۔۔۔۔لکی آرزو🌸

*کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب*
۔۔۔۔۔۔۔
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن کہہ لیجیے جو کچھ ہے دل میں آپ کے
ایک دن سن لیجیے جو کچھ ہمارے دل میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔
اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
جو دیکھے ہے کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے
۔۔۔۔۔۔۔
ہم گئے تھے اس سے کرنے شکوۂ درد فراق
مسکرا کر اس نے دیکھا سب گلہ جاتا رہا
۔۔۔۔۔۔۔
ہاں آسمان اپنی بلندی سے ہوشیار
اب سر اٹھا رہے ہیں کسی آستاں سے ہم
۔۔۔۔۔۔۔
اب تک نہ خبر تھی مجھے اجڑے ہوئے گھر کی
وہ آئے تو گھر بے سر و ساماں نظر آیا
۔۔۔۔۔۔۔
صرف اتنے کے لیے آنکھیں ہمیں بخشی گئیں
دیکھیے دنیا کے منظر اور بہ عبرت دیکھیے
۔۔۔۔۔۔۔
ایک کانٹے پہ سرخ کرنیں ہر اک کلی میں چراغ روشن
خیال میں مسکرانے والے ترا تبسم کہاں نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔
پہچان گیا سیلاب ہے اس کے سینے میں ارمانوں کا
دیکھا جو سفینے کو میرے جی چھوٹ گیا طوفانوں کا
۔۔۔۔۔۔۔
اک نہ اک ظلمت سے جب وابستہ رہنا ہے تو جوش
زندگی پر سایۂ زلف پریشاں کیوں نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔
شباب رفتہ کے قدم کی چاپ سن رہا ہوں میں
ندیم عہد شوق کی سنائے جا کہانیاں.

Leave a reply