لندن:برطانوی پارلیمٹ کے اسپیکر نے کہا ہے کہ قدامت پسند حکمراں جماعت کا سیاسی خلفشار برطانیہ کی جگ ہنسائی کی وجہ بنا ہوا ہے۔

برطانیہ کے سیاسی حالات کے متعلق اسپیکر لنڈسے ہولی نے دوہزار بائیس کے دوران ملک میں دوحکومتوں کے زوال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ ابھی تک بورس جانس اور لز ٹرس حکومت کے خاتمے سے پیدا ہونے والے مسائل سے باہر نہیں نکل سکا ہے۔ اس سال برطانیہ میں سب سے زیادہ سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

2011 کے بعد پہلی مرتبہ شام، ترکی اور روس کے وزرائے دفاع کی پہلی ملاقات،مذاکرات

رواں سال کے وسط میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن کو کورونا پابندیوں کی خلاف ورزیوں اور بعض وزارتوں پر بدعنوان افراد کی تعیناتی کے باعث رائے عامہ کے دباؤ کی وجہ سے اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا ۔ جانسن کے مستعفی ہونے کے بعد لزٹرس نے برطانوی کنزرویٹو پارٹی کی سربراہی سنبھالی تھی لیکن ان کے متنازعہ اقتصادی منصوبے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مالی بدحالی کے باعث یہ حکومت صرف چوالیس روز بعد ختم ہوگئی تھی ۔

روسی رکن پارلیمنٹ اور صدر پیوٹن کے نقاد کی بھارت میں پراسرار ہلاکت
خواتین پرپابندیاں،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا طالبان حکومت سے پالیسیاں بدلنے کا مطالبہ

اس کے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے کے بعد رشی سنک برطانوی کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ بنے اور ایک سال میں تیسری بار نئی کابینہ تشکیل دی، لیکن ان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے جس کے پیش نظربرطانیہ میں حکومت کے خاتمے اور سیاسی بحران کے خدشات ایک بار پھر شدت اختیار کرگئے ہیں۔

Shares: