پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے بھی صدارتی ریفرنس کا تحریری جواب جمع کرا دیا

مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی ،سابق صدر آصف علی زرادری اور تحریک انصاف نے صدارتی ریفرنس پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا۔

باغی ٹی وی :مسلم لیگ ن کی جانب سے جمع کروائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے اور 95 واضح ہے، ہر رکن کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے اور ہر رکن اسمبلی کا کاسٹ کیا گیا ووٹ گنتی میں شمار بھی ہو گا۔

مسلم لیگ ن کے جواب میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس قبل از وقت اور غیر ضروری مشق ہے، سپریم کورٹ کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار ہے، آئینی ترمیم کا نہیں۔

تحریک انصاف کی جانب سے جواب سینیٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ میں جمع کرایا تحریک انصاف نے نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب یں کہا کہ جواب ووٹ اجتماعی ہے-

تحریک انصاف نے جواب میں کہا کہ ممبر پارٹی سے ہٹ کر ووٹ نہیں دے سکتا، اکیلا ووٹ شمار میں نہیں کیاجائے گا، اگر کوئی منحرف ہو جاتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی صدارتی ریفرنس پر اپنا جواب جمع کرادیا، جواب سینیٹر فاروق نائیک کے زریعے جمع کرایا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس آر ٹیکل 186 کے دائرہ کار میں نہیں آتا، اگر اس صدارتی ریفرنس کے تحت فیصلہ یا رائے دی گئی تواپیل کا حق بھی متاثر ہوگا۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے جواب میں کہا کہ صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے دائرہ کار میں نہیں آتا، یہ صدارتی ریفرنس قابل سماعت نہیں، واپس کیا جائے۔ رکن اسمبلی کے ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے 63 اے کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی صدارتی ریفرنس پر جواب جمع کرادیا انہوں نے جواب لطیف کھوسا کے زریعے جمع کرایا گیا۔

قبل ازیں عدالت عظمیٰ،سپریم کورٹ بار اورجے یو آئی نے صدارتی ریفرنس کا تحریری جواب جمع کرا یا تھا-

سپریم کورٹ بار نے عدم اعتماد کی تحریک میں رکن قومی اسمبلی کے ووٹ کے حق کو انفرادی قرار دیدیا عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کسی سیاسی جماعت کا حق نہیں ہے کسی رکن کو ووٹ ڈالنے سے روکا نہیں جا سکتا،عوام اپنے منتحب نمائندوں کے ذریعے نظام حکومت چلاتے ہیں-

سپریم کورٹ بارنے اپنے جواب میں کہا کہ آرٹیکل 63 کے تحت کسی بھی رکن کو ووٹ ڈالنے سے پہلے نہیں روکا جاسکتا آرٹیکل 95 کے تحت ڈالا گیا ہر ووٹ گنتی میں شمار ہوتا ہے ہر رکن قومی اسمبلی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے میں خودمختار ہے آرٹیکل 63 اے میں پارٹی ڈائریکشن کیخلاف ووٹ ڈالنے پرکوئی نااہلی نہیں، جے یو آئی نے موقف اختیارکیا ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی ختم کرنے سے اجتناب کرے۔

دوسری جانب جے یو آئی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں کہا گیا کہ تحریک انصاف میں پارٹی الیکشن نہیں ہوئے جماعت سلیکٹڈ عہدیدار چلا رہے ہیں، سلیکٹڈ عہدیدار آرٹیکل 63 اے کے تحت ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے کی ہدایت نہیں کر سکتے۔

سپیکر کو اراکین کے ووٹ مسترد کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا، لازمی نہیں کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی ریفرنس پر رائے دی جائے۔ سپریم کورٹ نے پہلے رائے دی تو الیکشن کمیشن کا فورم غیر موثر ہو جائے گا۔ آرٹیکل 63 اے پہلے ہی غیر جمہوری ہے آزاد جیت کر پارٹی میں شامل ہونے والوں کی نشست بھی پارٹی کی پابند ہو جاتی ہے ریفرنس سے لگتا ہے صدر وزیراعظم اور سپیکر ہمیشہ صادق اور امین ہیں اور رہیں گے۔

جے یو آئی نے جواب جمع کرایا کہ پارٹی کیخلاف ووٹ پر تاحیات نااہلی کمزور جمہوریت کو مزید کم تر کرے گی صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے دائرے سے باہر ہے، صدارتی ریفرنس پارلیمنٹ کی بالا دستی کو ختم کرنے کے مترادف ہے، صدارتی ریفرنس بغیر رائے دیئے واپس کردیا جائے۔

دوسری جانب وفاقی وزیراطلاعات فوادچودھری نے سپریم کورٹ بار کے جواب پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وکیل وکلا تنظیموں کےاس کردار سےنالاں ہیں وکلا تنظیموں کا کام سیاسی جماعتوں کا آلہ کار بننا نہیں اپنی آزادانہ حیثیت برقراررکھنا ہے،سپریم کورٹ بار کا جواب پڑھ کر لگتا ہے بار باڈی ن لیگ کے ماتحت ہے-

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے بار کونسل اور سیاسی جماعتوں سے بھی جواب طلب کیا تھا-

Comments are closed.