پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

آئین پاکستان نے چیف جسٹس پاکستان کو فرد واحد کی حیثیت سے یہ حق نہیں دیا کہ وہ اکیلے فیصلہ کرے
0
139
qazi faez esa

اسلام باد: سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا تحریر کردہ 22 صفحات پر مشتمل پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔

باغی ٹی وی: تحریری فیصلے میں کہا کہ آئین پارلیمنٹ کو پریکٹس اینڈ پروسیجر سے متعلق قانون سازی کا مکمل اختیار دیتا ہے، آرٹیکل 184/3 کے فیصلےکے خلاف اپیل کا حق دینے کی قانونی شق پر 6 ججز نے اختلاف کیا، 6 کے مقابلے میں 9 کی اکثریت سے قانون بننے کے بعد اپیل کا حق آئینی قرار دیا جاتا ہے، اپیل کا اطلاق ماضی کے کیسز پر دینے والی شق کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے، اپیل کا حق ماضی سے دینےکی قانونی شق کی مخالفت 8 ججز نے کی۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ، اس ایکٹ سے کسی طرح کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوتے اور ایکٹ انصاف تک رسائی اور بنیادی حقوق کو یقینی بناتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں،اداروں کےدرمیان باہمی احترام کےآئینی تقاضے ہیں،باہمی احترام کا تقاضا ہےکہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی رائےکو اپنی رائے سے تبدیل نہ کرے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین اور عدلیہ کی آزادی کے منافی نہیں ہے، اس سے شفافیت اور انصاف تک رسائی میں مدد ملےگی، چیف جسٹس اور 2 سینیئر ججز پر مشتمل کمیٹی سے عدلیہ زیادہ بااختیار ہوگی-

پیپلزپارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جو ملک کو بچاسکتی ہے،بلاول بھٹو

فیصلے میں کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنچ نے8 جون کو کہا کہ کیس جولائی میں سماعت کیلئے مقرر ہو گا، جولائی اور اگست دو ماہ تک کیس سماعت کیلئے مقرر ہی نہ ہو سکا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف دائر کی گئی درخواستوں پر رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا، سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بنچ نے کیس سنا لیکن رجسٹرار آفس کے اعتراضات کا معاملہ زیر غور ہی نہیں لایا گیا، آئین پاکستان نے چیف جسٹس پاکستان کو فرد واحد کی حیثیت سے یہ حق نہیں دیا کہ وہ اکیلے فیصلہ کرے آئین کے تحت سپریم کورٹ کو سات اختیارات دیئے گئے ہیں، شفاف ٹرائل کے اصول کے تحت عدالتیں آئین و قانون کے تحت فیصلے کرنے کی پابند ہیں، ہر جج حلف کے تحت قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔

انٹر بینک میں ڈالر مزید سستا

فیصلے میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق دیا گیا ہے، فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دنیا بھر کے قوانین کے ساتھ شرعی تقاضہ بھی ہے، درخواست گزاروں کے دیگر نکات پر غور کرنا اکیڈمک بحث ہوگی جس میں عدالت کو نہیں پڑنا چاہیے پریکٹس اینڈ پروسیجر کےقانون بننے سےپہلے ہی عدالت نے حکم امتناع جاری کردیا جب کہ آئین سپریم کورٹ کو لامحدود اختیارات نہیں دیتا، آئین چیف جسٹس پاکستان کو اکیلے ہی فیصلے کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیتا، چیف جسٹس کا ماسٹر آف روسٹرز ہونا آئین میں کہیں نہیں لکھا، جمہوریت کی بنیاد پر قائم آئین میں ماسٹر کا لفظ تضحیک آمیز ہے، ماسٹر کا لفظ غلامی کی سوچ کی عکاسی کرتا ہےجو آئین اور شرعی اصولوں کےخلاف ہےشرعی اصول بھی ایک سے زائد افراد کےدرمیان معاملے میں مشاورت لازمی قرار دیتے ہیں۔ اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنا دراصل دوسروں کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے۔

ملک میں فی تولہ سونے کی قیمت میں اضافہ

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدلیہ کی ساکھ متاثر ہونے سے ملک اور عوام کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے مگر خود سپریم کورٹ پر نہیں، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کو چھوٹے بینچز کے فیصلوں پر فوقیت دی جاتی ہے، آئینی روایات کو قانون کی طرز پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔

Leave a reply