می ٹو:کی تلوار پروفیسر افضل محمود پر چل گئی ، دردناک کہانی

لاہور:“می ٹو” مہم کچھ عرصہ قبل شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہوتی گئی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہو رہا ہیکہ “می ٹو” مطلب میں بھی ، یہ میں بھی سے مراد وہ عورت ہے جو کہہ رہی ہیکہ ‘میں بھی’ کسی مرد کی حوس کا کسی نا کسی طرح کبھی نشانہ بنی ہوں۔

اپنے اوپر ہونے والی کسی بھی ہراسگی کے خلاف آواز اٹھانے کیلیے ایک مہم کا جنم نہ جانے کتنے بے گناہوں کی زندگیوں کو بھی کچل گیا۔ اس مہم میں خواتین کو اس بات پر ترغیب دی گئی کہ آپ بنا سوچے سمجھے اور بغیر کسی ثبوت کے کسی بھی مرد پر جنسی ہراسگی کا الزام عائد کر دیں پھر وہ مرد جانے اور اس کی باقی کی زندگی اور کیرئیر۔

ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں خواتین کی جانب سے بلاجواز الزامات مرد حضرات پر لگائے گئے اور ان مرد حضرات کی زندگیاں ، نوکریاں اور گھر پتا نہیں کیا کیا چھن کر رہ گیا۔ ممکن ہے یہ مہم بہتری کیلیے شروع کی گئی ہو لیکن اس کا خطرناک حد تک غلط استعمال معاشروں کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔

آپ حضرات نے بھی بہت سے واقعات سنے اور دیکھے ہوں گے کیونکہ میڈیا کا دور ہے اور اس دور میں ہر کسی تک خبر پہنچنا معمول کی بات ہے۔میں یہاں ذکر کرنا چاہوں گا لاہور کے معروف کالج “ایم اے او” کالج کا ، کچھ عرصہ قبل ایک استاد پر طالبہ کی جانب سے جنسی ہراسگی کے الزام کا!

ایم اے او کالج لاہور میں انگلش پروفیسر افضل محمود نے خاتون طالب علم کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام پر اور انکوائری کے بعد اس کے غلط ثابت ہونے کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے تصدیقی خط جاری نہ کرنے پر خودکشی کر لی ہے۔

ایم اے او کالج میں انگریزی کے استاد افضل محمود نے نو اکتوبر کو زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ استاد کو انکوائری کمیٹی نے کلئیر قراردیا تھا لیکن کالج انتظامیہ تصدیقی لیٹر نہیں دے رہی تھی اور استاد مسلسل بدنامی سے دلبرداشتہ ہوگیا تھا۔

استاد نے خط میں لکھا کہ میری بیوی بھی آج مجھے بدکردار قرار دے کر گھر چھوڑکر جا چکی ہے۔ میرے پاس زندگی میں کچھ نہیں بچا۔ میں کالج اور گھر میں ایک بدکردار آدمی کے طور پر جانا جاتا ہوں۔ اس وجہ سے میرے دل اور دماغ میں ہر وقت تکلیف ہوتی ہے۔ اگر کسی وقت ان کی موت ہو جائے تو ان کی تنخواہ اور اس الزام سے بریت کا خط ان کی والدہ کو دے دیا جائے۔

کالج لیکچرار نے اپنی بے گناہی کے ثبوت کے باوجود تصدیقی لیٹر جاری نہ ہونے پر خود کشی کی، انکوائری افسر نے رپورٹ میں لیکچرار افضل کو الزامات سے بری قرار دیا تھا۔

تفصیلات کے مطابق ایم اے او کالج کے انگلش ڈیپارٹمنٹ کے لیکچرار افضل محمود کی خود کشی کے معاملہ پر قائم کی گئی کالج ہراسمنٹ کمیٹی نے لیکچرار افضل کو بے قصور قرار دیا تھا تاہم انکوائری رپورٹ کے باوجود پرنسپل کی جانب سے لیکچرار کی بےگناہی کا باظابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔

اس استاد کے آخری الفاظ ایک خط کی صورت میں جو اس تحریر کیے ، ملاحظہ کیجیے
“I leave this matter in the court of Allah, The Police are requested not to investigate and other anybody”
“میں اپنا یہ کیس یہ معاملہ اللہّٰ کی عدالت کے سپرد کرتا ہوں، پولیس سے درخواست ہیکہ اس معاملے میں کسی سے تفتیش اور کسی کو تنگ نہ کیا جائے”

خودکشی سے ایک دن قبل کے اس خط کی جانب جس میں استاد محترم نے اپنے کالج کی ساتھی پروفیسر اور تفتیشی افسر ڈاکٹر عالیہ رحمان کو واضح طور پر یہ کہا کہ آپ (ڈاکٹر عالیہ رحمان ، تفتیشی افسر) نے مجھے بتایا کہ میں اس الزام سے باعزت بری ہو گیا ہوں ، میں ابھی تک کالج میں اسی الزام کو سر پر لیے چل رہا ہوں ،

ہر طرف میرے کردار پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ آپ (ڈاکٹر عالیہ) میری دوست اور سینئر پروفیسر ہیں، آپ کالج انتظامیہ پر زور دیں کہ میرے اس معاملے میں مجھے اور کالج کو صاف الفاظ میں بتایا جائے کہ مجھ پر لگنے والا الزام جھوٹا اور من گھڑت تھا۔

لیکن کالج انتظامیہ کی بے بسی دیکھیں کہ موت کے چار دن بعد تیرہ اکتوبر کو نوٹیفیکیشن جاری ہوا کہ استاد محترم “پروفیسر افضل محمود” بے گنا تھے، ان پر لگائے گئے طالبہ کی جانب سے تمام الزامات جھوٹے اور من گھڑت تھے۔

اب تفتیش میں طالبہ کیا کہتی ہیں ملاحظہ کیجیے
“ مجھے ٹیچر نے پیپر میں نمبر تھوڑے دیے، مجھے ان سے شکایت تھی کہ وہ ہمیشہ کم نمبر ہی دیتے تھے، میں نے ان سے بدلہ لینے کیلیے ان پر جنسی ہراسگی کا جھوٹا الزام لگایا تا کہ میں ان کو سبق سکھا سکوں”

اب مسئلہ یہ ہے کہ اس بےچارے استادکی بے گناہی کے کالج کے پروفیسر فرحان کو توفیق کیوں نہ ہوئی کہ وہ اپنے کلرک کو بلاکرچند الفاظ پر مبنی تحریر ہی لکھوا کر دے دے تاکہ پروفیسر افضل محمود پر لگے بھتان کے داغوں کو دھویا جاسکے ، اسی ہٹ دھرمی اور پرنسپل کی نااہلی کی وجہ سے انگریزی کے پروفیسر افضل کو بے قصور ہونے کے باوجود انتظامیہ نے تین ماہ تک کلیئرنس لیٹر نہ دیا، افضل نے تھک ہار کر خودکشی کرلی۔

ایم اے او کالج کے انگلش ڈیپارٹمنٹ کے لیکچرار کی خودکشی کے بعد کالج انتظامیہ اور پرنسپل کی نااہلی پرسوالات اٹھ گئے، لیکچرار افضل محمود نے ایک طالبہ کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام اور تحقیقات کے بعد اس کے غلط ثابت ہونے کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے تصدیقی خط جاری نہ کرنے پر خودکشی کرلی تھی۔

لیکچرار کی خود کشی کا ذمہ دار کون ہے؟ اےآر وائی نیوز تفصیلات منظر عام پر لے آیا، ذرائع کے مطابق لیکچرار پر لگے الزامات کی انکوائری کیلئے کالج ہراسمنٹ کمیٹی قائم کی گئی، کمیٹی کی انکوائری افسر ڈاکٹر عالیہ نے اپنی رپورٹ میں لیکچرار افضل کو الزامات سے بری قراردے دیا تھا۔

انکوائری افسرڈاکٹر عالیہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ رپورٹ تین ماہ پہلے ہی پرنسپل ڈاکٹر فرحان کو جمع کرادی گئی تھی اور رپورٹ میں پرنسپل کو طالبہ کیخلاف کارروائی کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔

واضح رہے کہ لیکچرار افضل کی خودکشی نے کالج انتظامیہ اور پرنسپل کی نااہلی پرسوالات اٹھادیئے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انکوائری رپورٹ کے باوجود لیکچرار کو کیوں بے قصور نہیں ٹھہرایا گیاْ، انکوائری رپورٹ کے باوجود پرنسپل نے طالبہ کیخلاف ایکشن کیوں نہیں لیا؟

یاد رہے کہ ایم اے او کالج میں انگریزی کے استاد افضل محمود نے نو اکتوبر کو زہر کھا کر خودکشی کر لی تھی، افضل محمود کی لاش کے ساتھ ان کی اپنی تحریر میں ایک نوٹ موجود تھا۔

جس پر تحریر تھا کہ وہ اپنا معاملہ اب اللہ کے سپرد کر رہے ہیں اور ان کی موت کے بارے میں کسی کی نہ تفتیش کریں اور نہ ہی زحمت دیں، پولیس اور میڈیکل رپورٹ سے ان کی خودکشی اور نوٹ لکھنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

Comments are closed.