سال گزشتہ کےماہ جون میں زیست فانی کے ایک سے بڑھ کر ایک پیارے کے فراق کا دکھ سہنا پڑا۔ ان میں سے ایک ہمارے استاد صحافت پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ بھی تھے جن کے نام اور تصور سے ہی تن بدن میں سکون و طمانیت کی لہر دوڑ جاتی تھی ۔۔۔۔
یہ چند سطریں اسی وقت لکھ گئی تھیں ۔۔۔۔۔۔ دوبارہ پیش ہیں ۔۔۔۔۔۔
زمانہ تلمیذی سے عالی جامعات کے نمونہ عمل اور ہم سب کے مشفق و مربی استاذِ کبیر پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ بھی چل دئیے۔
سچ یہ ہے کہ ہر سو عجب ضیاپاشیاں بکھیرتی اک شمع بچ چلی تھی اور آج وہ بھی بجھ گئی۔۔۔۔
کل ہی کی تو بات ہے آپ یونیورسٹی آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے سکول آف میڈیا کے ڈین پروفیسر کی حیثیت سے فیکلٹی ممبرز سے آن لائن مجلس میں خوش گوار موڈ کےساتھ تبادلہ خیال اور ہدایات عطافرمارہے تھے۔
دل ودماغ کے ہر نہاں خانے کی کہی یہ ہے کہ میدان صحافت کے شعبہ تدریس میں ہی آپ کی خدمات و مساعی لاتعداد و بےحساب ہیں۔تاریخ کے اوراق پلٹیں تو اس سے بھی بالا 50 سال قبل 1972ء میں جب ملک بھر کے نوعمر متلاشیان علم، اسلامی جمعیت طلبہ کے پرچم تلے”بنگلہ دیش نامنظور تحریک”چلا رہے تھے تو وہ لاہور سے نکلنے والے ہر جلوس میں شرکت کرتے اور مختلف تعلیمی اداروں میں منعقدہ جلسوں سے”قاری مغیث الدین شیخ”کی حیثیت سے خوب رنگ جما اور جذبوں کو جگا کر خطاب کرتے۔
ان سے ہم سب کے سیکھنے اور انہیں دیکھنے کی عمر برسوں پر محیط ہے۔ وہ بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان، ان کے شاگرد و صحافت کے بطل جلیل آغا شورش کاشمیری اور حمید نظامی جیسے مرحومین کے ممتاز مداحین میں سے تھے۔اس پر مستزاد،اتنی پرشکوہ شان پانے کے باوجود متانت و عاجزی ایسی کہ آخری دنوں تک اپنے استاد ڈاکٹر مسکین حجازی کا ذکر غایت حددرجہ عقیدت و احترام سے کرتے۔
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ بانی ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف ماس میڈیا کمیونیکیشن پنجاب یونیورسٹی کی وفات حسرت آیات فرد واحد کا سانحہ ارتحال نہیں بلکہ ایک ادارے کی ہی جیسے موت ہے۔ سب گواہ ہیں کہ وہ عہد ساز نظریاتی معلم اورنابغہ روزگار شخصیت تھے۔ اسلامیت اور پاکستانیت کے فقیدالثال مبلغ تھے۔ شعبہ صحافت میں انہیں استاذ الاساتذہ، شیخ الاساتذہ بلکہ رئیس الاساتذہ کا عالی مقام و مرتبہ حاصل تھا اور ان کا یہ منسب تادیر ان کے سب تلامذہ کے اذہان و قلوب میں نسل در نسل جاگزیں رہے گا ۔
ہمیں یقین محکم ہے کہ صدیوں آپ کا شمار محسنین صحافت و دردمندان ملک و ملت میں ہوگا۔
وہ ایک جوہر ومردم شناس عبقری شخصیت تھے۔جیسے ہی ان کے سانحہ ارتحال کی خبر ملی تو جسم و جاں جیسے بے جاں سے ہوگئے، ان کے یوں اور اتنے جلد فراق پر ملال اور وفات حسرت آیات سے جگر پاش پاش ہے، آپ کے اٹھ جانے سے ایک شخصیت کی ہی کمی واقع نہیں بلکہ فروغ علم صحافت و وطنیت و متانت کا ایک عظیم عہد تمام ہوا۔۔۔
تن بدن کا رواں رواں ان کی یاد میں پکار رہا ہے کہ
اک روشن دماغ تھا کہ نہ رہا۔۔۔
اک جلتاچراغ تھا کہ نہ رہا۔
رب کریم آپ کی بخشش کاملہ اور مغفرت تامہ فرماکر ان کی روح پر فتوح کو اعلیٰ علیین کا مکین و مقیم بنائیں۔
الھم اغفرلہ و الرحمہ ۔۔۔۔۔۔۔
آمین یا خیر الغافرین
پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کو بچھڑے سال بھی بیت گیا
تحریر:
(علی عمران شاھین)