پروفیسر سحر انصاری:اردوزبان کے معروف شاعراور ادیب بھی

0
65

عجیب ہوتے ہیں آداب رخصت محفل
کہ وہ بھی اٹھ کے گیا جس کا گھر نہ تھا کوئی

پروفیسر سحر انصاری

27 دسمبر 1941 یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردو زبان کے معروف شاعر، ادیب ، نقاد ، ماہرِتعلیم اورمیرے استادِ محترم پروفیسر سحر انصاری 27 دسمبر 1941 کو اورنگ آباد (دکن) میں پیدا ہوئے 1973 میں بلوچستان یونیورسٹی سے بطوراستاد پیشہ وارانہ سرگرمی کا آغاز کیا ۔ بعد ازاں جامعہ کراچی کے شعبہ تدریس سے وابستگی اختیار کی ۔ پہلی کتاب نمود 1976 میں شایع ہوئی جسے بے حساب پزیرائی حاصل ہوئی۔ خدا سے بات کرتے ہیں ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں 2015 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔
..
جانے کیوں رنگ بغاوت نہیں چھپنے پاتا
ہم تو خاموش بھی ہیں سر بھی جھکائے ہوئے ہیں
..
صدا اپنی روش اہل زمانہ یاد رکھتے ہیں
حقیقت بھول جاتے ہیں فسانہ یاد رکھتے ہیں
ہجوم اپنی جگہ تاریک جنگل کے درختوں کا
پرندے پھر بھی شاخ آشیانہ یاد رکھتے ہیں
ہمیں اندازہ رہتا ہے ہمیشہ دوست دشمن کا
نشانی یاد رکھتے ہیں نشانہ یاد رکھتے ہیں
ہم انسانوں سے تو یہ سنگ و خشت بام و در اچھے
مسافر کب ہوا گھر سے روانہ یاد رکھتے ہیں
دعائے موسم گل ان کو راس آ ہی نہیں سکتی
جو شاخ گل کے بدلے تازیانہ یاد رکھتے ہیں
ہماری سمت اک موج طرب آئی تو یاد آیا
کہ کچھ موسم ہمیں بھی غائبانہ یاد رکھتے ہیں
غرور ان کو اگر رہتا ہے اپنی کامیابی کا
سحرؔ ہم بھی شکست فاتحانہ یاد رکھتے ہیں

Leave a reply